صحتماحولیات

مٹی کے چولہے کا دھواں۔۔ موت کا کنواں!

بائیوماس یعنی مٹی کے چولہے سے نکلنے والا دھواں آج اس بلاگ کا موضوع ساتھ ہی ان بیماریاں کا ذکر بھی جو اس بائیوماس سے لاحق ہوتی ہیں۔

بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کے بہشتر دیہاتوں میں بھی آج تلک مٹی کے چولہے جلائے جاتے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ مٹی کے چولہے کا دھواں اصل میں عام دھواں نہیں بلکہ موت کا کنواں ہے؟ چولہے کا یہ دھواں اصل میں بائیوماس کہلاتا ہے۔ بائیوماس یعنی مٹی کے چولہے سے نکلنے والا دھواں آج اس بلاگ کا موضوع ساتھ ہی ان بیماریاں کا ذکر بھی جو اس بائیوماس سے لاحق ہوتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا کی 2.2 بلین آبادی جس میں سے 44 فیصد کا تعلق ایشیاء سے ہے، وہ کھانا پکانے کے لیے جو ایندھن استعمال کرتے ہیں وہ گوبر؛ بھوسہ، فصل کا فضلہ، تارکول، مٹی کا تیل، لکڑی اور پلاسٹک وغیرہ ہی ہوتا ہے، اور ان سب کے استعمال سے بائیوماس پیدا ہوتا ہے جو فضائی آلودگی کو جنم دیتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں اس گھریلو فضائی آلودگی سے 32 لاکھ لوگوں کی اموات ہوئیں۔ مگر پاکستان میں اس دھویں کو ناجانے کیوں سنجیدہ نہیں لیا جاتا؛ آج بھی خواتین گھروں میں غربت یا قدرتی گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی صحت کی پرواہ کیۓ بغیر اپنا فرض نبھاتی ہیں-خود سمیت پورے کنبے کیلئے روٹی سالن تیار کرتی ہیں- اور اس ادائیگی فرض کے دوران نجانے کن کن بیماریوں کا شکار ہوئیں، اور ہو رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکن خاتون 24 سال بعد بیٹی کو لینے ضلع خیبر پہنچ گئی

بائیوماس کے حوالے سے ریسرچ کرنے پر معلوم ہوا کہ مٹی کے چولہے پر کھانا پکانے سے ایک ہزار کے قریب سگریٹ جتنا دھواں پیدا ہوتا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ محض ایک سگریٹ کا دھواں کتنا مضر ہوتا ہے؛ اب جہاں جہاں مٹی کا چولہا بروئے کار لایا جا رہا ہے ان سادہ لوگوں کو کیا معلوم کہ چولہا جلا کر وہ اپنا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔

آپ سب کے ذہن میں سوال آرہا ہو گا کہ آخر یہ دھواں صحت کو کیسے متاثر کرتا ہے؟ تو جناب! جب بھی خواتین گھروں کے اندر کھانا پکانے کے لیے گوبر، بھوسہ، فصل کا فضلہ، تارکول، مٹی کا تیل، لکڑی اور پلاسٹک وغیرہ جلاتی ہیں تو اس سے کاربن کے ذرات پیدا ہوتے ہیں۔ مٹی کے چولہے سے سفید اور سیاہ دھوں نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ چولہے کے اس دھویں میں پولی سائیکلک ایئرومیٹک ہائیڈروکاربنز بھی موجود ہوتے ہیں جو انسانوں اور جانوروں میں کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

یہ کالا دھواں ان گھروں میں ہی منڈلاتا رہتا ہے اور کاربن کے ذرات کپڑوں، دیواروں کے ساتھ ساتھ سانس کی نالیوں میں بھی جمع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھوں کی بیماری، دمہ، الرجی، پھیپڑوں کی بیماری، کھانسی، گلے کی خرابی جیسی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ لکڑیوں کا دھواں اس وقت زیادہ خطرناک ہوتا ہے جب لکڑیاں گیلی ہوں کیونکہ اس وقت کالا دھواں زیادہ نکلتا ہے۔ اور جب لکڑیاں جلانے میں مشکلات پیش آتی ہیں تو خواتین اس کے اوپر مٹی کا تیل ڈالتی ہیں جس کی وجہ سے اس دھویں کا نقصان ڈبل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دھواں گرین ہاؤس گیسز کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ انسان اور ماحول دشمن بھی ہے۔

مگر خواتین آخر کریں کیا جب سوئی گیس کی سہولت ہو ہی نا، اوپر سے سلینڈر بھرنے کی استطاعت بھی نہ ہو تو پھر مٹی کا چولہا جلانا ہی پڑتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو خواتین ہی مٹی کا چولہا جلاتی ہیں کیونکہ کھانا پکانا ہو یا چائے، اور یا پانی گرم کرنا تو یہ خواتین ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین موسم سرما کے دوران کمروں میں ہیٹر کے بجائے لکڑیاں جلاتی ہیں۔ گاؤں میں ہر گھر میں تقریباً ایک کمرہ ایسا ضرور ہوتا ہے جہاں لکڑیاں جلائی جاتی ہیں اور پورے گھر کے لوگ اس کمرے میں جمع ہوتے ہیں۔ لکڑیوں کے اس دھویں سے گھر کے تمام افراد متاثر ہوتے ہیں مگر ان لوگوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ دھواں ان کے صحت کے لیے کتنا خطرناک ہے۔

آخر میں اتنا کہوں گی کہ صحت عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں حکومتیں عوام کو خوش کرنے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کر رہی ہیں تو پاکستان کی حکومتوں کو بھی جن پالیسیز کو دوام دینا چاہیے کم از کم ماحول دوست ذرائع توانائی کی یکساں اور بلاتفریق فراہمی ان میں سے ایک ضرور ہو۔ ایسا کرنے سے عوام کو سہولت بھی مہیا ہو گی، صحت سے متعلق مسائل بھی بڑی حد تک قابو میں رہیں گے اور جنگلات کی کٹائی میں بھی کافی کمی آئے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button