کلائمیٹ چینج اور خشک دسمبر: ”آج کل کی سردی تو کاٹنے کو دوڑتی ہے”
وادی تیراہ میں ان مہینوں میں ہر سو برف ہی برف ہوتی تھی، وادی جیسے سفید چادر اوڑھے دکھائی دیتی تھی لیکن اس کے باوجود سردی اتنی سخت نہ تھی جتنی آج ہے۔ تیراہ سے تعلق رکھنے والے بہادر خان کی روداد
”ہمارے وقتوں میں ‘مگھر’ (15 اکتوبرسے 15 نومبر) اور کتک (15 نومبر سے 15 دسمبر) میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا اور پورا مہینہ وقفے وقفے سے بارشیں ہوتی تھیں جس سے سردی کی شدت میں اضافہ یو جاتا تھا لیکن آج کل کی سردی تو کاٹنے کو دوڑتی ہے۔” اپنے حجرے میں بیٹھے 67 سالہ بہادر خان نے موسموں میں تبدیلی پر رائے دیتے ہوئے بتایا۔
بہادر خان کا تعلق تو خیبر کی وادی تیراہ سے ہے لیکن رہائش ان کی پشاور میں ہے۔ بہادر نے مزید بتایا کہ وادی تیراہ میں ان مہینوں میں ہر سو برف ہی برف ہوتی تھی، وادی جیسے سفید چادر اوڑھے دکھائی دیتی تھی لیکن اس کے باوجود سردی اتنی سخت نہ تھی جتنی آج ہے: "سردیاں سخت اور خشک تر ہوتی جا رہی ہیں، وقت پر بارشیں نہیں ہوتیں۔ سردیوں میں بارشیں کاشتکاروں کے لیے مفید تھیں۔”
خان نے مزید کہا کہ کتک میں گندم کی کاشت کی جاتی ہے اور اس کے لیے پانی کا دستیاب ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے تاہم بارشیں نہ ہونے کے سبب گندم کی کاشت میں کاشت کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
بہادر خان کی کہانی سے ایک بات واضح ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اب خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں نمایاں ہو رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات خیبر پختونخوا نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موسمی تغیر واضح طور پر رونما ہوا ہے: مون سون کے اوقات میں ردوبدل؛ اچانک کہیں تیز بارشیں، موسم سرما اور گرما کی مدت میں واضح فرق کا آنا، گرمیوں کا دورانیہ بڑھنا وغیرہ یہ تمام موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہی ہیں۔ محکمہ موسمیات کی تصدیق یہ تمام موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہی ہیں۔
اقوم متحدہ کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے بھی پیش گوئی کی ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے باعث کئی علاقوں میں خشک سردیوں کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ یہ حالات بارش کے پیٹرن میں تبدیلی، عالمی درجہ حرارت میں اضافے، اور فضائی آلودگی میں تغیرات کی وجہ سے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لکی مروت: دو مختلف واقعات میں ایک دوشیزہ، ایک یتیم لڑکا قتل
جنوبی ایشیاء، بشمول خیبر پختونخوا جیسے علاقوں کے، میں سردیوں کے دوران کم بارشیں پانی کی کمی کو بڑھا سکتی ہیں، زرعی پیداوار کو متاثر کر سکتی ہیں، اور موسمی بارشوں پر انحصار کرنے والے ماحولیاتی نظام پر دباؤ ڈال سکتی ہیں۔ ایسی تبدیلیاں پانی کے وسائل کے انتظام اور زرعی لچک کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔
کلائمیٹ چینج اور بے بس کاشتکار
بہادر خان کی طرح پشاور کے علاقے باغوانان سے تعلق رکھنے والے کاشتکار محراب خان بھی کلائمیٹ چینج سے متاثر ہو رہے ہیں۔ محراب تین ایکڑ زمین کے مالک؛ اور گندم سمیت سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔ محراب اپنی زمینوں سے ہر سال 30 سے 40 من گندم حاصل کرتے تھے تاہم پچھلے سال گندم کی کٹائی کے دوران اس کی تیار فصل خشک سالی کی نذر ہو گئی۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا ان کا کہنا تھا کہ اس سال بارشیں نہ ہونے سے گندم کی بوائی متاثر ہو گی۔ محراب پریشان اور فکرمند ہیں کہ اگر اسی طرح موسم تبدیل ہوتے گئے تو شاید وہ کاشتکاری چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
خیبر پختونخوا کلائمیٹ چینج پالیسی 2022 میں ایگریکلچر پرموسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا ذکر موجود ہے کہ سیلاب، طوفانی بارشیں، ہیٹ ویوز گرم، اور گرم ہواؤں جیسے شدید موسمی واقعات میں اضافے کی بدلوت زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے آبی وسائل سے متعلق مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بارش کے انداز میں تبدیلی اور گلیشیئرز کے پگھلنے میں کمی نے پانی کی کمی کو جنم دیا ہے جس سے آبپاشی متاثر ہو رہی ہے اور زرعی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ کیڑوں اور بیماریوں کا پھیلاؤ بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
پالیسی کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مٹی کے کٹاؤ اور زرخیزی میں کمی واقع ہو رہی ہے جس سے زمین کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کی معیشت کی بنیاد زرعی شعبہ ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے کم ہوتی پیداوار کا سامنا کر رہا ہے اور جس کے نتیجے میں کاشتکاری سے وابستہ کمیونٹیز کو معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ 2022 سیلاب کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں تقریباً 935 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ حال ہی میں محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں خشک سردی کا راج ہے، جبکہ نومبر کو بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گرم ترین مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے سموگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے؛ لاہور کئی مرتبہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں سرفہرست رہا ہے۔
کیا خشک سردی کی وجہ سے بیماریاں بھی پھیلتی ہیں؟
ٹی این این نے پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے شعبہ پلمونولوجی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ سے خشک سردیوں کی وجہ سے پھیلتی بیماریوں کے حوالے سے ایک تفصیلی نشست کی۔ انہوں نے بتایا کہ خشک اور سرد موسم کے نتیجے میں بخار، سانس، نزلہ زکام، کھانسی اور گلے کے امراض تیزی سے پھیلنے لگے ہیں اور ہر دوسرا مریض ان بیماریوں میں سے کسی نا کسی مرض کا شکار ہے۔
کسی بھی انسان کو یہ بیماریاں لاحق ہو جائیں توٹھیک ہونے میں تقریباً ایک ہفتہ ضرور لے گا۔ خشک سردیوں سے چھوٹے بڑے سب ہی متا ثر ہو رہے ہیں۔ خشک سردی ہو یا زیادہ گرمی اس کا سب سے پہلا اور شدید اثر بچوں اور بڑی عمر کے افراد پر پڑتا ہے کیونکہ قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگ عموماً ہڈیوں اور جوڑوں کے درد میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نے کہا کہ سردی سے بچاوٴ کے لئے احتیاط نہ کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس سے بچنے کے لیے تمام افراد بشمول بچے گرم لباس پہنیں، گرم مشروبات کا استعمال کریں، صبح اور شام بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں، ماسک کا استعمال کریں اور سادہ پانی کا استعمال بڑھائیں۔
کلائمیٹ چینج: جوابدہ کون؟
پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو کلائمیٹ چینج کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی بحران سے عام لوگوں کی صحت، زرعی معیشت اور ماحولیاتی نظام کو خطرہ ہے۔ اس ضمن میں صوبائی حکومتوں نے قانون سازی اور پالیساں ترتیب دی ہیں لیکن بنیادی سوال ان قوانین اور پالیسیوں پر عمل کا ہے۔
پشاور کے سینئر صحافی جاوید خان جو ماحولیاتی موضوعات پر کام کرتے ہیں، انہوں نےٓ ٹی این این کو بتایا کہ خیبر پختونخوا پاکستان میں کلائمیٹ چینج کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے لیکن اس ضمن میں بنائی گئیں پالیسیوں پرعمل نہیں ہو رہا۔ جاوید کے بقول کلائمیٹ چینج کا موضوع صوبائی حکومتوں کے لئے اہم موضوع نہیں ہے: "اگر ہم بجٹ کو دیکھیں تو کلائمیٹ چینج کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت کم رقوم مختص کی جاتی ہیں۔ دوسری جانب کلائمیٹ چینج کے اثرات کو باریکی سے نہیں دیکھا جاتا۔”
جاوید نے خیبر پختونخوا میں کلائمیٹ پالیسی پر سوال اٹھایا کہ اس پالیسی میں کاشتکاروں کی رائے شامل نہیں ہے بلکہ پالیسی متعلقہ اداروں کے ڈیٹا پر بنائی گئی ہے حالانکہ کاشتکاروں پر کلائمیٹ چینج کے ڈائریکٹ اثرات ہیں اور ان کاشکاروں کے پاس روایتی حل بھی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے کاشکاروں کی رائے پالیسی سازی میں شامل نہیں کی گئی۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں متعلقہ اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے: "کلائیمٹ چینج کسی ایک ادارے یا محکمے تک محدود موضوع نہیں بلکہ اس کا تعلق تمام ادروں سے ہے، لیکن محکموں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہی ہے جس کی وجہ سے کلائمیٹ چینج سے متعلق پالیسیوں پر عمل نہیں ہوتا۔”
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سربراہی میں کلائمیٹ چینج پر 29واں سالانہ کانفرنس آف دی پارٹیز یا کوپ 29 میں وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے کہا تھا: "کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے بدترین اثرات کا سامنا ہے۔ جس تباہی کا سامنا ہم نے کیا، کوئی اور ملک تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہم اپنے وسائل کے اندر رہ کر حالات کا مقابلہ کرنے کی سرتوڑ کرشش کر رہے ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی کے خلاف موثر اقدامات تنہا نہیں کر سکتے۔ ہمیں عالمی برادری کی حمایت اور مدد کی ضرورت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ کلائمیٹ فنانس کو گرانٹ کی صورت میں انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ ہم اور دیگر ترقی پذیر ممالک کلائمیٹ فنانس کے نام پر قرض کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ کاربن کا اخراج آج بھی بڑھ رہا ہے اور جی 20 ممالک سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں اس لئے ان 20 امیر ترین ممالک کو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے میں زیادہ حصہ ڈالنا چاہیے۔”