کلائمیٹ چینج: ہر پانچ میں سے ایک شخص شدید خطرے سے دوچار
محولہ بالا انکشاف حال ہی میں شائع ہونے والی عالمی بینک کی رپورٹ پاورٹی، پراسپیرٹی اور پلینٹ یعنی "غربت، خوشحالی اور سیارہ" رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔
‘دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک شخص کلائمیٹ چینج کی بدولت رونما ہونے والے شدید موسمی واقعات کے باعث نقصانات کے خطرے سے دوچار ہے، اور مستقبل میں ان خطرات سے نمٹنا، یا متاثر ہو کر بحالی کی طرف آنا ایک مشکل عمل ثابت ہو گا۔’
محولہ بالا انکشاف حال ہی میں شائع ہونے والی عالمی بینک کی رپورٹ پاورٹی، پراسپیرٹی اور پلینٹ یعنی "غربت، خوشحالی اور سیارہ” رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ پالیسی سازوں، حکومتوں، اور بین الاقوامی تنظیموں کو باخبر اور رہنمائی فراہم کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے تاکہ معاشی ترقی، برابری، اور ماحولیاتی پائیداری کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شدید موسمی واقعات جیسے طوفانی بارشوں، سیلاب، خشک سالی، طوفان اور شدید گرمی کی لہروں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے جس سے غریب معیشتوں پر نمایاں دباؤ پڑا ہے۔
عالمی بینک نے ایک ایسا انڈیکیٹر تیار کیا ہے جو دنیا بھر میں ماحولیاتی خطرات کے شکار افراد کی تعداد کا جائزہ لیتا ہے، اور یہ معلوم کیا گیا ہے کہ تقریباً ہر پانچ میں سے ایک شخص (یعنی دنیا کی کل آبادی کا ٪18) ماحولیاتی خطرات کی زد میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی زندگی میں کسی وقت بھی ایک شدید ماحولیاتی جھٹکا برداشت کرنا پڑے گا جس سے بحالی دشوار ہو گی۔ یہ تشویشناک اعداد و شمار ماحولیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات کو اجاگر کرتے ہیں جو دنیا کی سب سے زیادہ کمزور طبقوں پر غیرمناسب طور پر پڑ رہے ہیں۔ رپورٹ معاشی ترقی، عدم مساوات، اور ماحولیاتی پائیداری کے ساتھ جڑے اہم عالمی چیلنجز کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتی ہے۔
یاد رہے پاکستان شدید موسمی واقعات کی زد میں ہے جہاں 2010 کے سیلاب کے بعد ہر سال سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان پچھلی دو دہائیوں سے شدید موسمی واقعات کی زد میں ہے اور ہر آنے والے سال کے ساتھ جانی و مالی نقصانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 1,730 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے؛ تقریباً 40 لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں، 33 ملین افراد متاثر ہوئے، ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب تھا، جبکہ انفراسٹرکچر، گھروں اور روزگار کو شدید نقصان پہنچا۔ اسی طرح بحالی اور تعمیر نو کا تخمینہ 16 بلین ڈالر سے زائد لگایا گیا تھا۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں جنوبی ایشیاء کو ماحولیاتی تبدیلی کے لحاظ سے سب سے زیادہ کمزور خطوں میں سے ایک کے طور پر نمایاں کیا گیا ہے جہاں جنوبی ایشیاء کی تقریباً ٪32 آبادی سیلاب؛ خشک سالی، طوفان، اور شدید گرمی کی لہروں جیسے خطرات سے دوچار ہے۔ جنوبی ایشیاء میں یہ خطرات مزید اس لئے بھی بڑھ سکتے ہیں کہ یہ خطہ زیادہ گنجان آباد ہے، انفراسٹرکچر ناکافی، جبکہ ماحولیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے وسائل محدود ہیں۔ خطے میں کمزور طبقوں کو شدید موسمی حالات کے بعد بحالی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مالی اور ادارہ جاتی امداد ناکافی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے بحالی کی صلاحیت کو بہتر بنانا ایک اہم ترجیح ہے۔
جنوبی ایشیاء کی طرح افریقی ممالک بھی شدید طرح سے متاثر ہوں گے حالانکہ وہاں آبادی کی صورتحال جنوبی ایشیاء کے برعکس ہے۔افریقہ میں بھی ترقی کی رفتار کمزور ہے جہاں نصف سے زائد آبادی کو بجلی اور صفائی جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔ رپورٹ سب صحارا افریقہ کو ایک انتہائی کمزور خطے کے طور پر نمایاں کر رہی ہے جہاں ایک تہائی سے زائد آبادی شدید موسمی اثرات کے خطرے سے دوچار ہے۔
فضائی آلودگی: ایک اہم ماحولیاتی چیلنج
ورلڈ بینک کی پورٹ میں فضائی آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا گیا ہے جس سے صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی صحت کیلئے ایک اہم ماحولیاتی خطرے کے طور پر سامنے آئی ہے جو مختلف بیماریوں اور اموات کی بڑی وجہ ہے۔ فضائی آلودگی نہ صرف سانس اور دل کی بیماریوں میں اضافہ کرتی ہے بلکہ معاشی پیداواری صلاحیت میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جن علاقوں میں اسموگ کا غلبہ ہے وہاں اقتصادی اور سماجی گٹھن خاص طور پر شدید ہے جس کی وجہ سے اوسط عمر میں کمی اور صحت عامہ کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے پاکستان خاص طور پر پنجاب کے بڑے شہروں میں موسم سرما کے دوران اسموگ کا بحران عوامی صحت کی ایک بڑی ایمرجنسی کی شکل اختیار کر گیا ہے جہاں عالمی ادرہ صحت کے صاف ہوا کے تناسب سے 100 گنا زیادہ خراب ہوا ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ پنجاب حکومت نے فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے گرین لاک ڈاؤن بھی لگایا ہوا ہے تاہم اس کے علاوہ فضائی الودگی کو ختم یا کم کرنے کے لئے کوئی موثر اقدامات سامنے نہیں ائے۔
حال ہی میں یونیسف نے خاص طور پر پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے 11 ملین بچوں پر فضائی آلودگی کے سنگین اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ طویل مدت تک اس آلودہ ہوا کے اثرات میں سانس کی بیماریاں، ذہنی صلاحیتوں پر اثرات، اور جسمانی نشوونما میں رکاوٹ شامل ہے۔ پہلے ہی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں تقریباً ٪12 اموات فضائی آلودگی سے منسوب کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ماحولیاتی ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومتوں کے پاس مستقل حل نہیں ہے اور اس مسءلے کو کلائمیٹ چینج کے زاویے سے بھی نہیں دیکھا جا رہا ہے۔
عالمی بینک نے رپورٹ میں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ دنیا اس وقت ایک ساتھ کئی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے، "کثیر بحران” یعنی باہمی جڑے ہوئے مسائل جن میں معاشی جمود، بڑھتے ہوئے قرضے، جغرافیائی سیاسی تنازعات، اور ماحولیاتی ہنگامی صورتحال شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً ہر پانچ میں سے ایک شخص شدید موسمی حالات کے باعث ہونے والے نقصانات کے خطرے سے دوچار ہے جس سے بحالی ایک مشکل عمل ہو گا۔
گرین ہاؤس گیسز کا اخراج اور عدم مساوات
11 سے 22 نومبر 2024 تک اقوام متحدہ کی سربراہی میں عالمی کلائمیٹ کانفرنس سی او پی 29 آذربائیجان کے شہر باکو میں منعقد ہوئی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی جس کے ایجنڈے کا ایک اہم حصہ تھا۔
تقریباً 200 ممالک کے رہنماوں یا مزاکرات کاروں نے اس عالمی کانفرنس میں شرکت کی اور عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے وعدے کو پورا کرنے پر اکتفا کیا جو ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس میں ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا گیا تاہم ماحولیاتی کارکنان نے ان مذاکرات کو ہمیشہ کی طرح خالی وعدوں سے عبارت قرار دیا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی ریکارڈ سطح دیکھی گئی ہے جو 1990 کے بعد سے تقریباً 50 فیصد بڑھ چکی ہے۔ یہ خطرناک رجحان فضا میں حرارت کے اضافے سے براہ راست جڑا ہوا ہے جو ماحولیاتی حالات کو مزید خراب کر رہا ہے اور قدرتی آفات کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امیر ممالک عالمی اخراج کے چوتھے یا پانچویں حصے کے ذمہ دار ہیں لیکن ان اخراجات کے نتائج سب سے زیادہ غریب ممالک پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ زیادہ آمدنی والے اور درمیانی آمدنی والے ممالک اخراج کو کم کرنے میں تدریجی پیش رفت کی بات کرتے ہیں، لیکن موجودہ پالیسیاں عالمی ماحولیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہے جو گرین ہاوس گیسز کے اخراج کم کرتے ہیں لیکن کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر ہے۔
منفرد لائحہ عمل کی ضرورت
ورلڈ بینک کی رپورٹ ہر ملک پر زور دیتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مخصوص حالات کے مطابق پالیسی حل تیار کریں۔ کم آمدنی والے اور کمزور ممالک کے لیے انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے، اور مالیاتی نظام میں سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی ترقی کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق، درمیانی آمدنی والے ممالک کو ان پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی خطرات کو کم کریں۔ صاف توانائی اور ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کریں، سماجی تحفظ کے نظام کو بہتر بنائیں۔ فضائی آلودگی پر قابو پانے کی حکمت عملیوں سے معیشت اور ماحول دونوں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔
زیادہ آمدنی والے ممالک کے لیے واضح ہدف یہ ہے کہ وہ کم کاربن اخراج کی حامل معیشتوں کی طرف منتقلی کو تیز کریں۔ رپورٹ نے سفارش کی ہے کہ پالیسی سازوں کو اقتصادی ترقی اور ماحولیاتی اقدامات کے درمیان توازن کو سمجھنا چاہیے، اور دونوں مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہم آہنگی تلاش کرنی چاہیے۔ گرین انرجی جیسے اقدامات، جو اخراجات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت کو مضبوط کرتے ہیں، بہت اہم ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی یکجہتی ضروری ہے۔ امیر ممالک کو غریب ممالک کی مدد کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی، مالی معاونت، اور ترقیاتی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ پائیدار ترقی اور ماحولیاتی موافقت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔