عوام کی آوازماحولیات

موسمیاتی تبدیلی سے جڑے  پانی کے بحران کی وجہ سے باجوڑ کی خواتین کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ

نازیہ

باجوڑ کی تحصیل ناوگئی کے علاقے ناوہ کی رہنے والی ساٹھ سالہ رخسانہ بی بی کی آدھی زندگی گھر کے کام کاج اور دس افراد کے کنبے کے لئے پانی لانے میں گزر گئی۔ مگر ان کا خواب تھا کہ ان کی پانچ سالہ پوتی وہ زندگی نہ گزارے جو اس نے گزاری۔ مگر ایسا ہو نہیں سکا۔

ضلع باجوڑ میں گذشتہ کچھ سالوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت گر گئی ہے خصوصاً سال دو ہزار بیس میں پانی کی سطح اچانک 30 فٹ سے زیادہ نیچے گر گئی۔ اس وجہ سے رخسانہ بی بی کی زندگی بہت بری طرح سے متاثر ہوئی۔

زیر زمین پانی کی کمی نے جہاں علاقے کے تمام باسیوں کو متاثر کیا وہی پر رخسانہ بی بی کے خواب کی تکمیل کو مشکل سے ناممکن بنا دیا۔ اب انکی پوتی سکول جانے کی بجائے پانی بھرنے، اس کو اکٹھا کرنے، اور گھر تک لانے کے لئے اپنی دادی اور ماں کے ساتھ  کنبے کے تمام افراد، مال مویشی اور گھر میں لگی سبزیوں کی پانی کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگاتی ہے۔

اگرچہ پانی کا چشمہ زیادہ دور نہیں مگر سر پر بیس، تیس لیٹر پانی لاتے ہوئے دس منٹ کا فاصلہ گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ یہ گھنٹے بڑھ جاتے ہیں اگر دن میں چار سے پانچ مرتبہ سروں پر پانی لانا پڑ جائے۔ "بڑا کنبہ ہے، مرد ہیں، بچے اور بچیاں ہیں، مال مویشی ہیں، سبزیاں ہیں، ان سب کی ضروریات کے لئے زیادہ مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ ان سب کاموں کے لئے دن میں چشمے کے چکر چار، پانچ سے بڑھ جاتے ہیں مگر نہ فاصلہ کم ہوتا ہے نہ پانی سے جڑے کام” رخسانہ بی بی نے بتایا۔

رخسانہ بی بی کا خواب ہے کہ اسکی پوتی سکول جائے، پڑھے، بہتر زندگی گزارے مگر ان کے خواب چکنا چور کرنے میں موسمیاتی تبدیلی کا بہت حصہ ہے۔ "پانی کی خطرناک حد تک کمی نے ہماری مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے”، رخسانہ بی بی نے بتایا۔

رخسانہ بی بی کےعلاقے میں پانی کی انتہائی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ، اپنی بہو اور پوتی کے ساتھ ملکر گودر( چشمہ) سے پانی لاتی ہے۔  وہ روز اس امید کے ساتھ اٹھتی ہے کہ شاید کسی دن ان کو گھر پر پانی میسر ہو۔ لیکن ایسا ممکن نہ ہوا بلکہ پانی بھرنے کی مشکل  دن بہ دن بڑھتی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ جوانی میں ان میں ہمت تھی کہ پانی لے آئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت متاثر ہوتی گئی۔

"اب میری ٹانگوں میں، سر میں اور کمر میں بہت درد رہتا ہے جس کی وجہ سے پانی لانا پہلے کی نسبت بہت مشکل ہو گیا ہے”، انہوں نے بتایا۔ رخسانہ بی بی کا کہنا تھا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی جدت آ گئی ہے، طرح طرح کی ایجادات ہوئی ہیں نئی سہولیات آئی ہیں لیکن اس کو اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں گھر میں نلکے کا، ہینڈ پمپ کا پانی ںصیب نہیں ہوا۔

2021 میں وزارت آبی وسائل کی جانب سے سینیٹ میں جمع  کرائی گئی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے 28 اضلاع میں زیر زمین پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے جن میں سے 5 اضلاع میں سطح خطرناک حد تک کم ہے۔  گزشتہ دہائی میں زیر زمین پانی کی سطح 25 سے 74 فٹ تک گر گئی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع خیبر ہے جہاں زیر زمین پانی 74 فٹ تک گر گیا ہے، ضلع ہری پور دوسرے نمبر پر ہے، جہاں زیر زمین پانی 62 فٹ تک نیچے چلا گیا ہے۔ تیسرے نمبر پر ضلع مہمند ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح 57 فٹ تک گر گئی ہے۔ ضلع باجوڑ چوتھے اور ضلع کرم پانچویں نمبر پر ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح 26 فٹ تک گر گئی ہے۔

24 مارچ 2023 کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی آبی کانفرنس میں بتایا گیا کہ دنیا کی دو سے تین ارب آبادی پانی کے قلت کا شکار ہے۔ اسطرح پاکستان میں چھ سالوں میں زیر زمین پانی کی کمی  میں 5 تا 66 فیصد کمی ہوئی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں ایک تہائی پانی ختم ہو چکا ہے جبکہ کچھ علاقوں میں پانی ختم ہونے کے قریب ہے۔

باجوڑ کا  علاقہ ناوہ انتہائی خوبصورت اور سر سبز و شاداب ہے۔ مگر یہاں کی خواتین پانی کی کمی کی وجہ سے مشکلات  کا شکار ہیں۔ پشاور سے ناوہ جانے کے لئے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ ویلج کونسل ناوہ سے لی گئی معلومات کے مطابق ناوہ کی آبادی تقریباً دس ہزار افراد پر مشتمل ہے، ان میں سے نصف سے کم عورتیں ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے کوئی کالج نہیں ہے، لڑکیوں کے لئے ایک پرائمری سکول ہے۔ صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔

کبھی قدرتی چشمے ناوہ کی خوبصورتی ہوا کرتی تھی مگر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ناوہ کے چار چشمے خشک ہو گئے ہیں مگر اب ایک ناوہ گودر (چشمہ) ہے جہاں سے خواتین سروں پر پانی لاتیں ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کنویں سے پانی نکالتیں ہیں جبکہ صاحب استطاعت لوگوں نے زمین میں بور کیے ہوئے ہیں اور سولر سسٹم کے ذریعے پانی کنوؤں سے نکالتے ہیں۔

باجوڑ میں ایک کنواں کھودنے کے حوالے سے کھدائی کرنے والے طاہر نے بتایا کہ پہلے وقتوں میں ایک کنواں کھودنے کے لئے تقریباً دو سو فٹ کھدائی کی جاتی تھی مگر حالیہ وقتوں میں ایک کنواں کھودنے کے لئے تقریباً تین سو فٹ کھدائی کی جاتی ہے تب جا کر کہیں پانی ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے کنواں کھودنے کے کام کی قیمت دوگنی ہو گئی ہے اور وقت بھی دوگنا لگتا ہے۔

تحصیل ناوگئی کا علاقہ کرکنئی بھی انتہائی خوبصورت اور سرسبز ہے۔ مگر علاقے کی بچیوں اور عورتوں کی قسمت میں بڑے بڑے کنبوں کی ضروریات کے لئے پانی بھرنا اور اس کے لئے دوسروں کا محتاج ہونا لکھا ہے۔ یہ علاقہ صحت، تعلیم اور پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ اس علاقے میں لڑکیوں کے دو پرائمری سکول اور ایک بی ایچ یو بنیادی مرکز صحت  ہے۔ بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ "بلین ٹری سونامی” کے دوران  کرکنئ میں یوکلپٹس زیادہ تعداد میں لگائے گئے جو بہت زیادہ پانی پی جاتے ہیں۔ یہاں چشمے نہیں ہیں- اس لیے لوگوں کا دارومدار زیر زمین پر ہے۔

کرکنئ  میں عورتیں کنوؤں سے یا ہینڈ پمپ سے پانی نکالتی ہیں۔ یہاں چشمے نہیں ہیں۔ غریب کمیونیٹز کی عورتیں، صاحب استطاعت خاندانوں کی پانی کی فراہمی کے لئے محتاج ہیں۔ کرکنئی  سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ کلثوم نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں جو صاحب استطاعت لوگ ہیں  وہ سولر سسٹم کی مدد سے کنویں سے پانی نکالتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ایک کنواں کھودنے کے لیے دس سے بارہ لاکھ تک کی رقم درکار ہے جس کی وجہ سے چار یا پانچ گھرانے مل کر ایک کنواں کھود کر اس سے مشترکہ پانی نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ  غریب خواتین دوسرے گھروں سے سر پر پانی لاتیں ہیں۔

کلثوم نے بتایا کہ گھروں سے پانی لانا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ کبھی کبھار مختلف حیلے بہانوں سے وہ گھر والے ٹال بھی دیتے ہیں کہ ابھی مہمان ہیں پھر کسی اور وقت پانی بھرنے آئیں۔ ایک سوال کے جواب میں کلثوم نے بتایا کہ ہر وقت پانی کے مسئلے کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ "سو نہیں سکتی، چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ آتا ہے۔ دل بوجھل رہتا ہے۔ جب کپڑے دھونے ہوں تب زیادہ پانی کی ضرورت پڑتی ہے اور دن اسی میں گزر جاتا ہے” کلثوم نے بتایا .”ٰ

یہاں اکثر پانی کی مسئلے پر جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً عورتیں ہی پستی ہیں۔ ہم عورتیں خوفزدہ ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہمارا کیا بنے گا؟ اگر صرف زندگی پانی بھرنے تک ہی محدود ہوگئی تو وہ کیسے بچوں کے لئے گھر کے لئے اور باقی کاموں کے لئے وقت نکالیں”، انہوں نے بتایا۔

کلائیمیٹ ایکٹیویسٹ ڈاکٹر سعدیہ خالد نے بتایا کہ باجوڑ میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے  خشک سالی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے باجوڑ میں بارش معمول کے مطابق نہیں ہوتی۔ پہلے بارش آہستہ رفتار سے برستی تھی جس سے زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے میں مدد ملتی تھی مگر اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارش ایک یا دو گھنٹے کے لئے تیز رفتاری سے برستی ہے، جو سیلاب کا سبب بھی بنتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کا طرز ہی تبدیل ہو گیا ہے کیونکہ باجوڑ میں مون سون کی بارشیں اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2022 اور 2023 میں باجوڑ کی 85 فیصد فصلیں خشک سالی سے تباہ ہو گئی ہے۔ خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ  ان وجوہات کی بنا پہ پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ عوام کو خوراک کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کہ اثرات کو کم کرنے کے لئے 2015 میں بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔ 2018 تک اس پراجیکٹ کے تحت 75 لاکھ کے قریب درخت لگائے گئے تھے جس میں یوکلپٹس کا تناسب 23 فیصد تھا۔ اس حوالے سے محکمہ جنگلات باجوڑ کے مطابق باجوڑ میں ایک لاکھ سے زائد درخت لگائے گئے تھے جن میں یوکلپٹس کے درختوں کی تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔ یوکلپٹس کو اردو میں سفیدہ کہا جاتا ہے۔

زاکراللہ جان ای

انوارنمنٹل سائنس کے ایکسپرٹ ہیں، اور خیبر پختونخوا کے محکمہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں بطور واٹر اینڈ سائل ایکسپرٹ کام کر رہے ہیں۔ یوکلپٹس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کی ایک وجہ یوکلپٹسس بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یوکلپٹس کے درختوں کو اس لئے شامل کیا گیا تھا کیونکہ یہ جلدی بڑے ہو جاتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ یاد رہے کہ ہوکلپپٹس ذیادہ پانی جذب کرتا ہے۔ ایک یوکلپٹس کا درخت ایک دن میں زمین سے تقریبآٓ 56 لیٹر پانی جذب کرتا ہے۔

یہ کہتے ہوئے کہ یوکلپٹس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے ذاکراللہ نے کہا کہ ضرورت ہے کہ آئندہ پودوں کی نئی انواع کا تعارف علاقے کے موسمی حالات کا بغور مشاہدہ کرنے اور ماحول پر ان انواع کے ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔ اس کے ساتھ متواتر اور باقاعدگی سے پانی کی زمین کی سطح کے اوپر اور سطح کے نیچے لیولز کی نگرانی کی جائے، ذاکراللہ نے کہا۔

قبائلی اضلاع میں سے باجوڑ کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ 2023 میں ساتویں مردم شماری کے مطابق باجوڑ کی آبادی تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے زیادہ اور پکے گھر بناۓ جا رہے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح مذید  کم ہو رہی ہے۔

دیر سے تعلق رکھنے والی شاد بیگم جو انسانی حقوق کے لئے عرصہ دراز سے کام کر رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سب سے پہلے خواتین پر اثرانداز ہوتی ہے۔ انہوں نے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے تقاضا کیا کہ عوام کو پانی کے صحیح استعمال اور اس کے ضیاع پر آگاہی اور معلومات فراہم کریں۔

خواتین پر ذہنی دباؤ کے حوالے سے پشاور سے تعلق رکھنے والی کلینیکل سائیکالوجسٹ حافظہ زمر ملک نے بتایا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے خواتین ڈپریشن کا شکار رہتی ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے کیونکہ جب تک پانی کا مسئلہ ختم نہیں ہوتا ہے تب تک خواتین کا ڈپریشن  سے نکلنا مشکل ہے۔

باجوڑ میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کے حوالے سے بونیر سے تعلق رکھنے والے انوائرمینٹل اینڈ ہائیڈرو جیالوجسٹ طارق شاہ نے بتایا کہ دنیا میں پاکستان زیر زمین پانی نکالنے میں تیسرے نمبر پر ہے پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے باجوڑ میں جگہ جگہ پر پانی نکالنے کے لئے بور کئے جا رہے ہیں جو مزید زیر زمین پانی کی کمی کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے زراعت کے لئے بارش کے پانی پر زیادہ انحصار کیا جاتا تھا مگر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اب بارش کم اور تیز رفتاری سے برستی ہیں جس کی وجہ سے بارش کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور پھر مجبوراً زیر زمین پانی سے ہی زراعت کو سیراب کیا جاتا ہے۔

طارق شاہ نے زیر زمین پانی کو مزید نیچے جانے سے بچانے کے حوالے سے اس بات پر زور دیا کہ بارش کے پانی کو کسی تالاب کی شکل میں یا ڈیم میں جمع کرنا چاہیئے تاکہ پھر اس کو زرعی استعمال میں لایا جائے کیونکہ اس طرح کرنے سے صاف اور تازہ پانی کی بچت ہوگی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button