عوام کی آوازماحولیات

کلائمیٹ چینج اور بڑے شہروں میں دم گھٹتی سانسیں

کیف آفریدی

آج کل ہمیں یہ خبر مختلف ویب سائٹس، اخبارات اور ٹی وی چینل پر ملتی ہے کہ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے اور اسکی فضا مضر صحت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق  لاہور کے بعد ملتان دوسرے، اسلام آباد تیسرے، پشاور چوتھے، راولپنڈی پانچویں، ہری پور چھٹے اور کراچی ساتویں نمبر پر آلودہ ترین شہروں میں ہیں۔ لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ کلائمیٹ چینج  نے سموگ اور دھند کے دورانیے کو طویل کردیا ہے۔

سموگ کے بحران کی بنیادی وجہ گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں ہے، دوسری وجوہات میں فصلوں کی باقیات جلانے کا دھواں، کوئلہ، کچرا، تیل یا ٹائر جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں فضا میں داخل ہوتا ہے اور اس کا اثر موسم سرما کے آغاز پر ظاہر ہوتا ہے  سردی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے کلائمئیٹ چینج نے اس عمل کو بھی اور بڑھا دیا ہے۔

کیا موسمیاتی تبدیلی سے سموگ اور دھند کے دورانیے پر بھی اثر پڑا ہے؟

ٹی این این نے پشاور کے میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ایک سربراہ ڈاکٹر محمد فہیم سے کلائمیٹ چینج اور سموگ اور دھند کے نیکسیز یعنی تعلق کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔

موسمیاتی تغیر یا کلائمیٹ چینج  کی وجہ سے  دھند اور سموگ کے دورانئے پر کافی اثر پڑا ہے۔ کیونکہ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے یہاں کے موسم کا جو پیٹرن تھا وہ تبدیل ہو گیا۔ خصوصا بارشوں کا دورانیہ یا بارشوں کے اوقات میں تبدیلی آگئی ہے۔  فہیم نے ایک سوال کے جواب میں کہا اگر دیکھا جائے تو پہلے سردیوں کی بارشیں نومبر کے آخر یا  دسمبر کے مہینے سے شروع ہو جاتی تھی۔ او یوں یہ مارچ مہینے تک  سلسلہ چلتا رہتا تھا لیکن پچھلے کئی سالوں سے کلائمیئٹ چینج  کی وجہ سے دسمبر بلکل خشک گزر جاتا ہے۔ حتی کہ نومبر میں بھی پہلے بارشیں ہوا کرتی تھی۔ اس لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے سموگ یا فوگ کا دورانیہ تبدیل بھی ہوا اور وسیع بھی ہوتا جا رہا ہے جو ماحول اور اس میں بسنے والے انسانوں اور دوسرے انواع کے لیے خطرناک ثابت ہورہا ہے۔

 دھند (فوگ) کس مہنے میں شروع ہوتا ہے اور انکا دورانیہ کتنا ہوتا ہے؟

ڈاکٹر فہیم کا کہنا تھا کہ جب آسمان بلکل صاف ہو اور ہوا کی رفتار بلکل صفر کے برابر یا ہوا نہیں چل رہی ہو اور نمی موجود ہو تو یہ دھند دیر تک رہنے کے لئے ساز گار ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دھند کو کسی مہینے کے ساتھ وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔  میدانی علاقوں میں زمین کی سطح جب ٹھنڈی ہونے لگتی ہے اور اسکے قریب کوئی ہوا آئے جس میں نمی ہو تو ٹھنڈ کی وجہ سے ہوا کے اندر جو بخارات ہوتے ہیں تو ہوا میں وہ قطرے پھیل جاتے ہیں، جس سے فوگ یا دھند بن جاتی ہے۔ یہ کسی بھی مہینے میں ہوسکتا ہے لیکن میدانی علاقوں میں یہ اکثر اکتوبر میں اس کی شروعات ہو جاتی ہے، جب تک اسکو فیوریبل کنڈیشن ملتی رہی گی تو فوگ کا دورانیہ بڑھتا جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جب سے دسمبر کے مہینے میں برسنے والی بارشیں کم ہو گئی ہیں تو دھند کا دورانیہ بھی اسکے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب جنوری اور فروری میں بھی بارشیں نہ ہو تو یہ دھند اور سموگ  فروری تک پھیل سکتی ہے۔

ڈاکٹر محمد فہیم نے بتایا کہ دھند کی وجہ سے فضائی حادثات ہو سکتے ہیں یا فضائی نقل وحمل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو موٹروے اور بڑے شاہراوں پر ٹریفک بھی متاثر ہوتی ہیں۔  ایک اہم مسئلہ یہ بھی کہ جو لوگ سانس کی بیماری میں مبتلا ہے تو انکو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے جو کہ خطرناک ہیں۔

سموگ اور فوگ کے صحت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے طبعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خصوصی طور پر حساس عمر یعنی بچے اور معمر افراد کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ فوگ اور سموگ سے مختلف بیماریاں جیسے کان ناک گلے کی بیماریوں، الرجی، انکھوں اور سانس کی مختلف بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

دھند اور سموگ میں فرق ہیں

محمد فہیم کہتے ہیں کہ اگرچہ دیکھنے میں دونوں ایک جیسی نظر آتی ہیں لیکن دھند اور سموگ دو مختلف چیزیں ہیں اور ہماری صحت پر ان کے اثرات بھی مختلف نوعیت کے ہیں ۔ جب ہوا میں پائے جانے والی نمی کم درجہ حرارت کی وجہ سے کثیف ہوجاتی ہیں تو یہ ماحول میں سفیدی مائل دبیز تہہ بنا دیتے ہیں۔  جسے ہم دھند کہتے ہیں۔ اور جب اس دھند میں دھواں شامل ہو جاتا ہے یعنی آلودہ ہو تو یہ مزید گہری اور کثیف ہوجاتی ہے اور اسے سموگ کہا جاتا ہے۔  یعنی دونوں چیزوں میں بنیادی فرق دھوئیں کا ہے۔ دھند میں گرد غبار کم لیکن سموگ میں فضائی آلودگی کے ساتھ دھواں بھی ہوتا ہے۔

اگر فرق کی بات کی جائے تو دھند کا رنگ سفیدی مائل ہوتا ہے، لیکن سموگ آلودگی اور دھوئیں کے باعث گہرے اور میلے رنگ کی ہوتی ہے۔ سورج نکلنے کے ساتھ دھند کم ہوتی چلی جاتی ہے لیکن سموگ دن بھر ماحول میں جوں کی توں موجود رہتی ہے۔ اس میں سانس لیتے ہوئے آپ کو آلودگی کا احساس بھی ہوتا ہے جبکہ آنکھوں میں بھی جلن محسوس ہوتی ہے۔  اسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق موسم گرما کے مقابلے میں سردیوں میں ہوا بھاری ہو جاتی ہے، جس سے فضا میں موجود زہریلے ذرات نیچے کی طرف جاتے ہیں اور فضا آلودہ ہو جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، آلودہ ذرات کی ایک تہہ، جس میں کاربن اور دھوئیں کی بڑی مقدار شامل ہے، علاقے کو ڈھانپ لیتی ہے اور اسی کو اسموگ کہتے ہیں۔

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے سخت متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ اور پاکستان کا نمبر پانجویں پوزیشن پر آگیا ہے۔ کلائمئیٹ چینج کے  ان اثرات میں اگر ایک جانب سیلابی صورتحال، گلیشیئرز کا پگھلنا، بے ترتیب بارشیں اور خشک سالی ہے تو دوسری جانب ہر سال ہیٹ ویوو کے اثرات بھی بڑھتے رہتے ہیں۔

موسمیاتی تغیر نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہر سال گرمی کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ سردیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ رواں سال جون اور جولائی میں سخت ترین گرمی ریکارڈ کی گئی ہیں۔ جبکہ اپریل اور مئی کے مہینوں میں پری مون سون کی بارشیں معمول سے زیادہ ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ قوام متحدہ کی جانب سے  آب و ہوا اور ماحول پر نظر رکھنے والی عالمی ادارے انٹر گورمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج آئی پی سی سی نےدنیا کے پالیسی میکرز کو بار بار اپنی تحقیقاتی رپورٹس کے زریعے آگاہ کیا ہے کہ کلائمیٹ چینج اب ایک ایسا خطرہ ہے جسکا فوری حل تلاش کرنا ناگزیر ہے پاکستان کا شمار ان ممالک کی  فہرست میں ہوتا ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب زایدہ متاثر ہیں دوسری جانب پاکستان کا شمار ان پہلے پانچ ممالک میں ہے جہاں فضا الودہ رہتی ہیں۔

ورلڈ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان کا شہر لاہور اس ہفتے دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔  ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان میں فضائی الودگی کو کم کرنے لئے حکومتی سطح پر کوشیشں نا ہونے کی برار ہیں اور اس حوالے سے حکومتی پالیسیاں صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔

Show More

Kaif Afridi

Kaif Afridi is working as a journalist from past 9 years in Peshawar. He belongs to District Khyber. He has vast experience in multimedia work including Digital reporting, News Anchoring and currently working as a Video Editor in Tribal News Network TNN

متعلقہ پوسٹس

Back to top button