کلائمیٹ چینج کو ہم روک نہیں سکتے، البتہ آثرات کو کم کرسکتے ہیں "کلائمیٹ ایکٹیوسٹ سے ایک خصوصی نشست”
کیف آفریدی
پاکستان میں خیبر پختوںخوا کلائمیٹ چینج کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا بھر میں موسموں میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ دوسری جانب شدید موسمی واقعیات میں اضافے سے خیبر پختونخوا سمیت وہ خطے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جہاں سیاسی معاشی اور سماجی ڈھانچہ فعال نہیں ہے۔
سال 2022 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب میں تقریبا 1700 افراد جانبحق ہوئے اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے کی طرف عوام کو راغب کرنے کے لئے حکومتی سطح پراقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماحولیاتی بحران جیسے سنگین مسئلے پر قابوں پانے میں ایک طرف اگر حکومتی توجہ نہیں تو دوسری جانب نوجوانوں میں اس مسئلے کی طرف کم رجحان بھی ہے۔
البتہ ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی فاطمہ فراز جو کہ او لیول کی طالبعلم ہے 2019 سے کلامئٹ چینج جیسے اہم مسئلے پر آواز اٹھا رہی ہے۔ کلائمیٹ چینج پر آواز اٹھانے کا عزم انہوں نے سکول سے شروع کیا۔
ٹی این این نے فاطمہ فراز سے ماحولیاتی بحران اور انکے ایکٹیوزم کے کے حوالے سے ایک خصوصی نشست کی جس میں انہوں نے بتایا کہ ہمیں ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے اگر ہم نے اس حوالے سے عملی اقدامات نہیں اٹھائے تو ہمارا آنے والا مستقبل ایسے خطروں سے دوچار ہوگا جس کا ازالہ شاید ممکن نہیں ہوگا۔
فاطمہ نے بتایا کہ سن 2019 میں سویڈن کے ایک صحافی جو کلائمیٹ ایکٹویسٹ تھی انہوں نے اقوام متحدہ میں موسمیاتی تبدیلی کی حوالے سے ایک خطاب کیا، وہ سنا تھا، جس سے میں متاثر ہوئی اور اس فیلڈ میں قدم رکھا۔ انہوں نے کہا کہ بچپن سے پینٹنگز اور فن سے لگاؤ ہے تاہم انہوں نے اپنے لئے ماحولیاتی آلودگی کا موضوع منتخب کیا ہے۔ شروعات میں تصویر کے زریعے عوام کو موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے کی آگاہی کیا کرتی تھی۔ تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات سے ماحول کو بچایا جا سکے۔
اس سلسلے میں 2019 سے درجنوں فن پارے ماحولیاتی آلودگی اور اس کے ساتھ منسلک دیگر عوامل کے بارے میں بنائے ہیں۔ فاطمہ کو اس بات پر یقین ہے کہ آرٹ کے زریعے ہم موثر طریقے سےعوامی آگاہی پھیلا سکتے ہیں۔
موسمیاتی تغیر کو روک نہیں سکے بلکہ انکے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے فاطمہ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے مسائل دوسرے صوبوں کے نسبت زیادہ ہے، جب سیلاب آتا ہے تو سب سے پہلے خیبرپختونخوا کے علاقوں کو متاثر کرتی ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہے جتنے ہمارے مسائل ہیں۔
یہاں پر لوگوں کو آگاہی کی بہت ضرورت ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگ نہیں سمجھتے ہیں کلائمیٹ چینج کیا ہے اور انکے اثرات کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ سیلاب کا آںا، ہیٹ ویوز یا خشک سالی جیسے اہم مسائل کے بارے میں عوام کو خبردار کرنا بہت ضروری ہے۔ فاطمہ نے اس حوالے سے "ٹیم ایکو گارڈز” کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے جس میں مختلف علاقوں سے نوجوان شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام سیلاب کی پیشگی اطلاع یعنی ارلی وارننگ سسٹم کو فعال بنانا ہے اور اس ضمن سیلابوں کی ذد میں آنے والے علاقے کے مکینوں کو احتیاطی تدابیر کا بتاتے ہیں، اور انکے ساتھ مدد بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ پرائمری لیول پر سکولوں میں موسمیاتی تبدیلی کو مضمون کے طور پر لازمی قرار دیا جائے۔ اور ہر لیول کے لیے ایک کورس کی شکل میں کلائیمیٹ چینج کو پڑھانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے کتابوں میں گرافک بنائے جانے چاہیے تاکہ انہے مزاحیہ طریقے سے تشریح ہو سکے اور وہ سجمھ بھی سکیں، اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ شروع سے ہی بچے موسمیاتی تبدیلی کو سمجھ پا ئنگے اور اس کے اثرات کو کافی حد تک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہیں۔
فاطمہ نے کہا کہ جب ہم ایک بیچ لگاتے ہیں تو اس کا فائدہ انسان کو پانچ سے دس سال بعد ملتا ہے۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا میں بلین ٹری سونامی ایک قابل تعریف پراجیکٹ ہے۔ اس سے لوگوں میں درخت لگانے کی آگاہی پیدا ہوئی ہے۔ تاہم ایک چیز جو اس میں شامل ہونی چاہیئے تھی وہ یہ ہے کہ کس علاقے میں کونسے درخت لگانے چاہیئے انکے لئے ریسرچ کرنی کی ضرورت ہے۔ اس لئے اس کو ترجیح دینی چاہیئے تھی کہ ہر علاقے کی آب ہوا کی مناسبت سے درخت لگانے چاہیئے۔
ٹیمبر مافیہ کا ذکر کرتے ہوئے کلائیمٹ ایکٹویسٹ فاطمہ فراز نے کہا کہ پاکستان میں اینوارمنٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ اگر سوات کی بات کی جائے تو وہاں ٹمبر مافیہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لئے صرف درخت لگانا نہیں بلکہ انکی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے، اس حوالے سے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے چاہیئے۔ فاطمہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بارے میں آگاہی دینا صرف حکومت اور چند اداروں کا کام نہیں بلکہ ہم سب کو مل کر اس کے اثرات کے تدارک کے لیے کام کرنا پڑے گا۔
فاطمہ نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 5 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جبکہ ایک سر سبز ملک کیلئے 25 سے 35 فیصد تک رقبے پر جنگلات چاہئیں اسلئے پودے زیادہ سے زیادہ لگا کر جنگلات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہئے کہ مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے تاکہ بارش اور سیلاب کی صورت میں پانی ضائع ہونے سے بچا کر ذخیرہ کیا جاسکے۔ پاکستان میں تیل اور کوئلہ سے توانائی پیدا کی جاتی ہے جس سے گرین ہاؤس گیسز بھی پیدا ہوتے ہیں جو ماحولیات کیلئے انتہائی خطرناک ہیں اسلئے عوام کو پیدل اور سائیکل پر سفر کرنے کی عادت بھی بڑھانی ہوگی کیونکہ اس سے توانائی کی بچت کیساتھ ساتھ ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ متواتر موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ برس دنیا بھر میں پہلے سے زیادہ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں دیکھنے میں آئیں جس سے لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کے لئے خطرات بڑھ گئے۔ عالمگیر موسمیاتی صورتحال سے متعلق ڈبلیو ایم او کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ آٹھ برس تاریخ کے گرم ترین سال تھے جب سطح سمندر میں اضافے اور سمندری حدت نے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہاؤس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق کلائمیٹ چینج پر قابوں پانے کے لئے گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کے عمل کو روکنے کے لئے ہر ملک کو سر توڑ کوشش کرنی ہوگی کسی ایک ملک کی کوشش مسئلے کا حل نہیں ہے۔ فاطمہ فراز کا بھی ماننا ہے کہ عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کے حکومتوں کو اس مسلے پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فاطمہ کے مطابق ہمارے معاشرے میں کلائمیٹ اگہی نا ہونے کے برار ہے حکومت کو چاہیئے کہ کلائمیٹ چینج کے اثرات کے تدارک کے لئے عوام کو ساتھ لیں اور اس ضمن بننے والی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائے جائے۔