عوام کی آوازماحولیات

کلائمیٹ چینج جراثیم بردار کیڑوں سے پھیلنے والی امراض میں اضافے کا سبب بن رہا ہے

کیف آفریدی

خیبرپختونخوا میں ڈینگی وائرس نے پھر سے سر اٹھایا ہے، ڈینگی ایک (ویکٹر بورن ڈیزیز) یعنی وہ بیماری جو جراثیم بردار کیڑوں سے پھیلتی ہیں، میں شمار ہوتی ہے، ایک بار پھر صوبے میں توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔

رواں سال خیبر پختونخوا میں دو افراد ڈینگی کی وجہ سے جان سے گئے جبکہ 547 افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوچکے ہے۔ صوبائی ادارہ صحت کے مطابق سب سے زیادہ پشاور میں 174 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ابیٹ آباد 88، نوشہرہ 53 ، ہنگو 41، مانسہرہ 51، بنو 18 ہری پور 19 اور چارسدہ میں 18 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اسی طرح باقی اضلاع میں بھی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق صوبے کے بڑے ہسپتالوں میں ڈینگی بخار کے مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈز قائم کیے گئے ہیں۔ اور اب تک 262 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ باقی مریضوں کا علاج جاری ہے۔

ضلع نوشہرہ میں رواں سال دو افراد جان سے گئے ہیں، قاضی حسین میڈیکل سنٹر ہسپتال نوشہرہ کے ترجمان میاں خطیر کاکا خیل کے مطابق چند دن پہلے 34 سالہ خیبر بینک کے ملازم حافظ شیراز الدین حقانی ڈینگی وائرس کے شکار ہوئے اور ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گئے۔ اسی طرح 35 سالہ خاتون سمیرہ خان  بھی ڈینگی وائرس کی وجہ سے مر گئی۔  ترجمان کے مطابق اب بھی نوشہرہ کے قاضی حسین میڈیکل کمپلیکس ہسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور سی ایم ایچ نوشہرہ سمیت رسالپور چھاونی ہسپتال میں بھی ڈینگی کے مریض زیر علاج ہیں۔ نوشہرہ کی طرح پشاور، مردان، خیبر، ابیٹ آباد، ہنگو، سوات اور دوسرے اضلاع میں بھی ڈینگی نے سر اٹھایا ہوا ہے۔

 ڈینگی وائرس موسمیاتی تغیر کی وجہ سے کیسے بڑھ رہا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی، ڈینگی اور دیگر (ویکٹر بارن ڈیزیز) ویکٹر سے پھیلنے والی بیماریوں کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ، بے ترتیب بارشیں، اور زیادہ نمی مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں۔ ڈینگی مچھر، گرم اور مرطوب موسم میں زیادہ فعال ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے، جس سے ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق کلائمیٹ چینج ویکٹر سے پھیلنے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کو بڑھا رہی ہے۔ ادارے کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی مچھروں کے پھیلاؤ اور ان کی بیماریوں کے جغرافیائی دائرے کو بڑھا رہی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پہلے یہ بیماریاں موجود نہیں تھی۔ اس لیے ماحولیاتی تبدیلی اور صحت کے مسائل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

اس حوالے سے ٹی این این سے خصوصی بات کرتے ہوئے پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ایسوسی ایٹ میڈیسن پروفیسر ڈاکٹر عطا محمد خان نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ڈینگی مچھر کی افزائش میں اضافہ ہو رہی ہے۔

وہ کہتے ہے کہ کلائمئٹ چینج کی وجہ سے معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے پانی کا زیادہ دیر تک کھڑا رہنا بھی ڈینگی مچھر کی افزائش نسل میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ کیونکہ اس پانی میں ڈینگی مچھر آسانی سے انڈے دیتے ہیں اور اپنی نسل کو بڑھاتے ہیں اب ظاہر ہے جب ڈینگی مچھر زیادہ ہونگے تو ان کے حملے بھی بڑھ جائنگے۔  اسی طرح اگر دیکھا جائے تو گرمی کا دورانیہ بھی زیادہ ہے تو پانی کا استعمال زیادہ ہو جاتا ہے، پانی کا کھڑا ہونا چھتوں پر یا کسی برتن اور گملوں وغیرہ میں تو اس سے بھی ڈینگی کے مچھر اپنی نسل بڑھاتے ہیں۔  اب یہ ڈٰینگی کسی بھی انسان کو کاٹے گا تو متاثرہ شخص میں ڈینگی پھیل جاتا ہے۔

ڈاکٹرعطا محمد خان نے بتایا کہ درجہ حرارت کے بڑھ جانے سے ڈینگی کے شکار مریض کے خلیوں میں یہ وائرس تیزی سے پھیل جاتا ہے۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بارشوں کا زیادہ ہونا اور درجہ حرارت کے اضافے سے ڈینگی کی افزائش نسل بڑھنے میں مدد دیتی ہے اور یہ موسمیاتی تغیر کی ہی وجہ ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ کلائمیئٹ چینج کی وجہ سے ڈینگی وائرس میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ڈینگی وائرس کی علامات اور انکی روک تھام

پروفیسر ڈاکٹر عطا محمد کے مطابق ڈینگی ایک وائرل ڈیزیز ہے مطلب یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ اس کی علامات میں میجر یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کر سخت بخار چڑھ جاتا ہے، جسم میں شدید درد محسوس ہوتا ہے۔ آنکھوں کا درد، جوڑ اور اسی طرح بدن کا گوشت بھی درد محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ الٹیاں کرنا، پیٹ میں درد ابھر آنا یا جسم کے مختلف حصوں پر خاص قسم کے نشانات رونما ہونا وغیرہ ڈینگی وائرس کے علامات میں شامل ہیں۔

یہ ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ نر سے ملاپ کے مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔ ایڈیِز ایجپٹی مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے۔

متاثرہ شخص کا وائٹ بلڈ سیل یعنی سفید خون بھی کم ہو جاتا ہے جو کہ تشویشناک ہوتا ہے۔ ایک اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ ڈینگی مچھر جس بندے کو کاٹے تو تقریبا دو ہفتے بعد انہیں ان علامات کا پتا چل جاتا ہے۔ بہت سارے متاثرہ افراد خود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں تاہم جو وقت پر علاج نہ کریں تو وہ تشوشناک حالت میں جا سکتے ہیں۔

ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے پہلے تو ضروری ہے کہ جو شخص ڈینگی سے متاثر ہو چکا ہو تو انہں چاہیئے کہ ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق کریم یا پاوڈر لگایا کریں تاکہ دوسرے مچھر انکو نہ کاٹے۔ اس سے یہ بیماری پھیلنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

اسی طرح  ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح بارش کے بعد اگر گھروں کے آس پاس یا لان، صحن وغیرہ میں پانی جمع ہو تو اسے فوراً نکال کر وہاں سپرے کرنے سے ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔

ڈینگی کی روک تھام کے لیے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے کیا اقدامات اٹھائے؟

پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشاد روغانی نے بتایا کہ ڈینگی کی روک تھام کے لیے ہم کمیونیٹی آگاہی پر کام کر رہے ہیں۔ جہاں جہاں پر پانی کھڑا ہو نہ صرف انکو ختم کرنا بلکہ ان جگہوں کو بند کرنا چاہیئے کہ اس میں دوبارہ پانی کھڑا نہ ہو۔ اسی طرح اگر کسی علاقے پر ڈینگی کیس رونما ہو جائے تو وہاں پر محکمہ کی طرف سے خصوصی ٹیم بھیجی جاتی ہے تاکہ اس کے ہر پہلو کو دیکھا جائے۔ سپرے سے لیکر انوارمینٹل میکنیکل اڈاپٹیشین یا کوئی تبدیلی کراسکتے ہیں وہ کرواتے ہیں۔

ادارہ اس حوالے سے ایکشن لے رہا ہے۔ ڈاکٹر ارشاد روغانی کے مطابق ڈاکٹرز کے پاس جو متاثرہ ڈینگی کے مریض آتے ہیں تو کونسلنگ کے لیے انکو کلائمئٹ چینج کی آگاہی ضروری ہے، تاہم ڈاکٹر تو صرف مرض کی تشخیص اور انکو علاج معالجے کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرے گا۔ تو اس لیے ڈاکٹر کے پاس موسمیاتی تغیر کے حوالے سے آگاہی کا اتنا وقت نہیں ہوتا۔ "ارشاد روغانی نے کہا”

خیبر پختونخوا میں کلائمیٹ چینج اور ویکٹر بورن امراض کی روک تھام کے لائحہ عمل

ماحولیاتی تبدیلی ویکٹر سے پھیلنے والی بیماریوں جیسے ڈینگی کے پھیلاؤ میں بڑا خطرہ بن رہی ہے ماحولیاتی ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث دنیا کے وہ علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں جہاں پہلے یہ بیماریاں عام نہیں تھیں۔

عالمی ادرہ صحت ڈبلیو ایچ او کی رہورٹس کے مطابق دنیا کی تقریباً نصف آبادی اب ڈینگی کے خطرے میں ہے، جس کے سالانہ 100 سے 400 ملین انفیکشن ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔  ڈینگی دنیا کی تیزی سے پھیلنے والی وائرل بیماریوں میں سے ایک ہے اور سالانہ 390 ملین افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

جن میں سے تقریباً 96 ملین افراد کو طبی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، ڈینگی سے دنیا بھر میں 20,000 سے زائد اموات ہوتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی نے ڈینگی جیسے خطرناک ویکٹر سے پھیلنے والے امراض کو مزید بڑھا دیا ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت ڈینگی سے نمٹنے کے لئے اقدامت تو کر رہی ہے لیکن صوبے میں تاحال کوئی ایسی پالیسی مرتب نہیں ہوئی جو کلائمیٹ چینج کے تناظر میں ویکٹر بارن بیماریوں پر قابو پا سکیں۔  ٹی این این نے صوبے کے محکمہ صحت سے اس حوالے معلومات لینے کی کوشش کی ہے لیکن محکمے کی جانب سے تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کلائمیٹ چینج کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے لیکن صوبائی حکومت خصوصی طور پر کلائمیٹ چینج کے صحت پر پڑھنے والے اثرات کے حوالے سے خاطر خوا اقدامات اٹھانے میں ناکام ہے۔ صوبے میں کلائمیٹ چینج کی پالسی فعال ہے لیکن ڈینگی جیسی بیماری کو کلائمیٹ چینج کے تناظر میں خاص لائحہ عمل کا موجود نہ ہونا مستقبل کے لئے تشویشناک ہے۔

 

Show More

Kaif Afridi

Kaif Afridi is working as a journalist from past 9 years in Peshawar. He belongs to District Khyber. He has vast experience in multimedia work including Digital reporting, News Anchoring and currently working as a Video Editor in Tribal News Network TNN

متعلقہ پوسٹس

Back to top button