کوہاٹ،افغان پناہ گزین نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ایک سال تک استعمال کے قابل کیسے بنایا؟
کیف آفریدی
عموما تو لوگ پلاسٹک بوتل کو استعمال کے بعد پھینک دیتے ہیں مگر خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے علاقے چیچنہ میں رہائش پذیر افغان باشندہ عبد الرؤف خان پلاسٹک بوتل کو ایک سال تک اپنے استعمال میں لا رہا ہے۔ 45 سالہ عبدالروف کا کہنا ہے کہ انکا تعلق افغانستان کے پکتیا صوبے سے ہے اور وہ آج سے 40 سال پہلے یہاں پاکستان ہجرت کر کے آئے تھے۔ انہوں نے آٹھویں کلاس تک یہاں تعلیم حاصل کر لی پر غربت کی وجہ سے تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کرش پلانٹ میں کام کرتے رہے۔
عبدالرؤف خان نے ٹی این این کو بتایا کہ اب یہ پچھلے 4 سالوں سے یہاں کوہاٹ کے پہاڑوں میں بکریاں چراتے ہیں اور اس کام میں بہت خوش ہے۔ وہ کہتے ہے کہ کوہاٹ کا یہ علاقہ پانی کی کمی کا شکار ہے، یہاں پر گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تالاب بنائے ہوئے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے اور پھر یہ پانی ہم خود استعمال میں لاتے ہیں۔
یہ پانی ہم پیتے بھی ہیں اور گھر کے دوسرے کاموں کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ بارشیں نہ ہونے سے انکو پھر سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ خشک سالی سے انکے یہ تالاب بھی خالی پڑ جاتے ہیں اور پھر یہ بہت مشکل سے کافی دور جا کر پانی لانے کا بندوبست کرتے ہیں جو کہ انکے لیے کافی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ صبح سات بجے اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں اور پہاڑوں کی طرف جاتے ہیں۔ پہلے گرمیوں میں وہ اپنے ساتھ سادہ بوتل میں ٹھنڈا پانی لے جایا کرتے تھے۔ تاہم تھوڑے سے فاصلے پر جانے کے بعد وہ پانی گرم ہو جاتا پھر وہ مجبورا گرم پانی کو پیتا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ترکیب سوچی اور اس پلاسٹک کے بوتل کو مختلف کپٹروں سے ڈھانپ کر اسے مکمل کوور کیا جس سے بوتل کا وزن تو تھوڑا بھاری ہو گیا پر اس سے ان کو ایک بہت بڑا فائدہ مل گیا جی ہاں وہ یہ تھا کہ اب اس بوتل میں ٹھنڈا پانی کئی گھنٹوں تک ٹھنڈا ہی رہتا ہے، عبد الرؤف نے کہا۔
ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے چرواہا عبدالرؤف نے بتایا کہ جو ترکیب انہوں نے اپنائی ہے انکو اس سے فائدہ مل رہا ہے ظاہر ہے وہ صبح سات بجے سے شام پانچ بجے تک اپنی بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ پیدل آنا جانا، بہت تھکاوٹ ہوتی ہے اور پھر پیاس بھی چلدی لگ جاتی ہے ایسے میں میرے لیے یہ بوتل بہت مددگار ثابت ہو رہا ہے۔
پلاسٹک پلوشن/ آلودگی کیا ہے اور یہ ماحول پر کتنا اثرانداز ہوتی ہے؟
اس حوالے سے پشاور میں انوارمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر حبیب جان نے ٹی این این کو بتایا کہ معدنی ایندھن کے زریعے پلاسٹک کی پیداوار کے نتیجے میں خطرناک مادے خارج ہوتے ہیں، اسی طرح پلاسٹک میں خود ایسے زہریلی کیمیائے مادے ہوتے جو کہ ہمارے فطری نظام اور انسانوں کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہے۔ ایسا ہی پلاسٹک سے بنی اشیاء پانی، مٹی اور ہوا سب کو نہ صرف آلودہ کرتی ہیں بلکہ یہ ہماری غذائی اشیاء کو بھی آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ جس سے مختلف قسم کی بیماریاں جنم لے رہی ہے۔
ڈاکٹر حبیب جان نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 4 سے 5 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک ضائع ہوتا ہے اور اگر کوئی کارروائی نہ کی گئی تو 2040 تک پلاسٹک کا کچرا سالانہ 12 ملین ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے جس سے ماحولیات اور انسانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ صحت عالمی سطح پر ممالک نے پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان نے بھی اس کی پیروی کی ہے اور پلاسٹک پر پابندی کے لیے نئی قانون سازی کی ہے، لیکن ابھی تک زیادہ پائیداراور نامیاتی حل کے حق میں پلاسٹک کو ختم کرنے میں محدود کامیابی حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر حبیب جان کہتے ہیں کہ پلاسٹک کی بوتل تقریبا پانچ سو سے ایک ہزار سال تک زمیں میں محلول نہیں ہوتی۔ دنیا میں 8 ارب ٹن پلاسٹک موجود ہیں، جس سے تقریبا 50 فیصد لینڈ فیلڈ میں جاتا ہے۔ لینڈ فیلڈ سے مطلب یعنی حکومتی سطح پر اس کو ڈھب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 19 فیصد پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں پلاسٹک کے استعمال کو آسان دہ اور سہولت کار آلہ سمجھا جاتا ہے پر یہ ماحول کے لیے نقصان کا سبب بن رہی ہے۔
انوارمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے اہلکار ہونے کے ناطے مجھے پلاسٹک کے نقصانات زیادہ نظر آرہے ہیں۔ آج سے تقریبا چالیس سال پہلے پاکستان میں پلاسٹک کا استعمال اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے گھروں میں بھی کپڑے کے تھیلے اور بیگز ہوا کرتے تھے جو مختلف چیزوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ "ڈاکٹر حبیب جان نے کہا”
پلاسٹک پلوشن کو ختم کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر حبیب جان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک ایسی چیزوں سے بننے چاہیئے جو بائیو ڈی گریڈیبل ہو یعنی پلاسٹک استعمال ہونے کے بعد جب زمین یا مٹی میں چلی جائے تو وہ جلدی محلول ہو۔ دنیا میں بھی ایسے بائیو پلاسٹک کا تصور ہو رہا ہے تاکہ پلاسٹک پلوشن کی روک تھام ہو جائے۔ اس مد میں مختلف بین الاقوامی کمپینیز کام کر رہی ہے جو کہ مختلف نشاستہ یا ایل جی سے پلاسٹک بنا رہی ہے اسی طرح مشروم سے بھی پلاسٹک بنانے پر کام ہو رہا ہے۔
اس کے لیے ریسرچ اکیڈیمیا کام کرتی ہے۔ تاکہ اس اہم سنگین مسئلے پر قابو پا سکے۔ اسی طرح مچھلی کے سکیل سے بھی پلاسٹک بننے پر کام ہو رہا ہے اور بعض ترقیاتی ممالک میں یہ عمل جاری ہے۔ اس قسم کی پلاسٹک کا اہم فائدہ یہ ہے کہ استعمال کے بعد جلد ہی محلول ہو جاتی ہے جس سے ماحول آلودہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔
پولیتھین بیگز نہ صرف ماحول کو آلودہ کرتے ہیں بلکہ اس کا صحت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اور مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں پلاسٹک کی بوتل کی بجائے شیشے کے بوتل کے استعمال پر کام جاری ہے اور اسلام آباد کے چند ہوٹلز میں یہ دستیاب ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی استعمال ہو رہا ہے تو یہ بھی پلاسٹک بوتل کی ایک متبادل صورت ہیں۔
پاکستان پلاسٹک کی آلودگی سے لڑنے کے لیے ورلڈ اکنامک فورم کے ساتھ شراکت داری کر رہا ہے۔ فروری 2022 میں، جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں، پاکستان نے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل پلاسٹک ایکشن پارٹنرشپ (GPAP) میں شمولیت اختیار کی ہے، جس کا مقصد پلاسٹک کے فضلے کو ختم کرنا اور 2024 تک ایک بین الاقوامی، قانونی طور پر پابند معاہدہ بنانا ہے۔