عوام کی آوازماحولیات

درہ آدم خیل کے راز محمد نے موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے لئے کیسے متبادل فصل کی کاشت کی؟

کیف آفریدی

گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کی زد میں آنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ کاربن اخراج کے لحاظ سے پاکستان کا کاربن اخراج دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر پھر بھی پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے متاثر ممالک کی فہرست میں ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو موسمیاتی تبدیلی سے نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس سے ہماری زراعت اور فوڈ سیکورٹی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

جیسا کہ وقت پر بارشیں نہ ہونے سے گندم کی فصل کو نقصان پہنچتا ہے یا طوفانی بارشیں اور آندھی سے مکئی کی فصل خراب ہوتی ہیں۔ تاہم خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کے علاقے درہ آدم خیل کے رہائشی راز محمد نے موسمیاتی تغیر کی وجہ سے نقصانات سے بچنے کے لیے اپنی کھیت فصل کا حل نکالا ہے۔ 46 سالہ راز محمد کہتے ہیں کہ وہ ہر سال گندم کی کٹائی کے بعد فورا مکئی کی فصل اگاتے تھے تاہم طوفانی بارشوں اور آندھی کی وجہ سے انکی فصل خراب ہوتی تھی اس لیے انہوں نے اس سال مکئی کی جگہ سبزی یعنی کچالو کی کاشت اگائی۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے راز محمد نے بتایا کہ اس نے پچھلے کئی سالوں سے تجزیہ کیا کہ نقصان سے بچنے کے لیے وہ مکئی کی جگہ سبزیاں اگائے گا، اس لیے اب اس فیصلے پر عمل کر کے کھیتوں میں کچالو کی فصل اگائی۔ درہ آدم خیل میں پانی کی کمی نہیں ہے اور بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو کچالو فصل کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہیں۔

شروع میں ہم کھیتوں میں یوریا اور سپرے کراتے ہیں کیونکہ یہ انکے لیے بہت ضروری ہوتا ہے اور اسی طرح یہ تقریبا ایک سال تک کچالو اگ جاتے ہیں لیکن اسکے لیے پانی کی مقدار زیادہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ہر دوسرے یا تیسرے دن ہم کھیت کو پانی دیتے ہیں۔ کھیت سے فالتو جڑی بوٹیاں ہٹانا بھی اہم کام ہوتا ہے جیسے ہم ہر روز کراتے ہیں۔ سبزی جب پک جاتی ہیں تو پھر ہم اسے منڈی تک رسائی کر لیتے ہیں اور یہ سبزی ہمارے لیے اچھا منافع ہے۔ راز محمد کے مطابق انہوں نے یہ طریقہ دوسرے کسانوں کو دیکھتے ہوئے اپنایا کہ انکی فصل خراب ہوتی تو کیسے اسکے متبادل فصل کاشت کراتے تھے۔

موسمیاتی تغیر نے پاکستان کو گھیر رکھا ہے ایک طرف اگر خشک سالی اور درجہ حرارت کا اضافہ ہے تو دوسری طرف معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب کا خطرہ منڈلاتا ہے۔

 موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے والی سبزیوں کے اضافے کے لیے محکمہ زراعت کے اقدامات کیا ہے؟

اس حوالے سے ٹی این این سے خصوصی گفتگو میں محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر ایکسٹینشن ایگریکلچر ڈاکٹر حافظ فرہاد کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت فصلوں کے مختلف ایشوز پر کاشتکاروں کے لیے ٹرینگ کا انعقاد کراتے ہیں اور انکو نئے طریقہ کار سیکھاتے ہیں کہ کیسے یہ اپنی فصل کو موسمیاتی تغیر سے بچائے۔ اس کے لیے سو سے زائد فارم سروس سنٹرز کام کر رہے ہے اور اس سنٹرز کے زیر اہتمام صوبائی سطح پر دو لاکھ پچاس ہزار رجسٹرڈ کاشتکار شامل ہیں۔ یہ کسان سیڈ فرٹیلائزر اور مشنیری وغیرہ کا بندوبست وہ خود کراتے ہیں، سنٹرز سے مدد لیتے ہیں اور جتنا ہو سکے فارم سروس سنٹرز انکے کام کو آسان کرانے کے لیے تراکیب بتاتے ہیں۔

ڈاکٹر حافظ فرہاد کا مزید کہنا تھا کہ ٹیری فارمنگ سیٹ اپ ہمارے پاس موجود ہے جس میں ہمارے ساتھ رجسٹرد سات لاکھ تک کاشتکار ہیں۔ ان میں کسان کارڈ اور فارمنگ سروس والے بھی شامل ہیں جنہیں ایس ایم ایس کے زریعے معلومات  دیتے ہیں کہ کیسے آپ نے کلائمئٹ چینج کا مقابلہ کرنا ہے اور کونسی فصل کو کس مہینے میں اگانا ضروری ہے تاکہ اسکا نقصان نہ پڑے۔ اس طرح کاشتکاری کے طریقے بھی ہم انہیں سکھاتے ہیں اور ساتھ میں انکو مطلع کیا جاتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے آپ ادارہ زراعت یا اپنی علاقے کے زرعی سنٹر سے رابطہ کریں یا وہاں خود جا کر متعلقہ مسلہ احکام کے ساتھ اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ کھاد اور بیج کو کیسے اگانا ہے اور اس حوالے سے تربیت دینے کی ذمہ داری محکمہ زراعت بہت احسن طریقے سے ادا کر رہی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے زراعت کو نقصان پہچنے سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

اس حوالے سے ڈاکٹر حافظ فرہاد نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان فلڈ پلین ملک ہے اسکا مطلب ہے یعنی یہاں پر سیلاب ضرور آئیگا۔ پہلے پچیس سال بعد سیلاب ضرور آتا تھا پھر بیس سال اور اب یہ دورانیہ کم ہوتا گیا دس سال تک آگیا ہے تو فلڈ کی روک تھام کے لیے پہلے سے حکمت عملی ضروری ہے۔

اسکے لیے چاہیئے کہ احتیاطی تدابیر اپنائے یعنی سیلاب سے بچاؤ کیسے کیا جا سکتا ہے ہمیں پانی کو ضیاع سے بچانا ہے۔  اس حوالے سے حکومت نے نینشل سیکورٹی پالیسی 2026 بھی لانچ کروائی ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کلائمئٹ چینج اور فوڈ سیکورٹی پر فوکس کرنا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق مضبوط معیشت اضافی وسائل پیدا کرے گی جو بعد میں منصفانہ طور پر تقسیم کیے جائیں گے تاکہ عسکری اور انسانی سکیورٹی کو فروغ دیا جا سکے۔

خیبرپختونخوا میں کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق درجہ حرارت میں میں اضافہ، شید خشک سالی اور طوفانی بارشوں سے صوبے کی زراعت کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ درہ آدم خیل کے راز محمد کی طرح دوسرے کاشتکار بھی موسمیاتی تغیر کے نقصانات سے بچنے کے لیے حل تلاش کرنا ہو گا۔

 

Show More

Kaif Afridi

Kaif Afridi is working as a journalist from past 9 years in Peshawar. He belongs to District Khyber. He has vast experience in multimedia work including Digital reporting, News Anchoring and currently working as a Video Editor in Tribal News Network TNN

متعلقہ پوسٹس

Back to top button