موسمیاتی تبدیلی سے خوراک کے بحران کا خطرہ ہے ، ذرعی ماہرین
شاہین آفریدی
پاکستان میں زرعی ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل قریب میں پاکستان کو خوراک کے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے زیادہ تر کسان موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کو روکنے اور زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے ہائبرڈ فصلوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ مدبر شاہ اپنے تین ایکڑ کھیتوں میں ہائبرڈ ٹماٹر اگاتے ہیں اور اس سے اچھی آمدنی کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ ضلع تین بڑے دریاؤں سوات، جندی اور کابل کے سنگھر پر واقع ہے، جو ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا کا تیسرا بڑا زرعی علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
مدبرشاہ کا کہنا ہے کہ یہ زمین ہر قسم کی سبزیوں اور پھلوں کے لیے موزوں ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی پیداوار میں بہت کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بے وقت بارشوں، سیلابوں اور زرعی زمینوں کی کمی کی وجہ سے ہائبرڈ فصلیں کاشت کرنے کو وہ ترجیح دیتے ہیں تاکہ اچھی پیداوار حاصل کر سکے۔ امسال مدبر شاہ نے ہائبرڈ ٹماٹر کاشت کیے اور عام فصل کی بنسبت چار گنا حاصلات کی توقع کر رہے ہے۔
مدبر شاہ ’’اگر مون سون بارشوں میں سیلاب سے میری فصل محفوظ رہی تو مجھے تین ماہ کے مختصر سیزن میں ۷ سے ۸ لاکھ آمدن کی توقع ہے۔ عام فصل میں مجھے ۶۰ سے ۷۰ ستر ہزار تک آمند ملتی ہے۔ ہائبرڈ ٹماٹر کو میں نے اس لیے ترجیح دی کیونکہ اس کو پانی دینے کے بعد گلنے سڑنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ ٹماٹر کا پودا تار کے ذریعے درخت کی طرح اوپر بڑھتا ہے اور ٹماٹر توڑنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ ہائبرڈ ٹماٹر سائز میں بڑا ہوتا ہے اور مارکیٹ میں اس کی قیمت بھی اچھی ہوتی ہے‘‘۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر وہ چھ ماہ کے عرصے میں ہائبرڈ بیج لگاتے ہیں، فروری کے وسط سے شروع ہو کر اگست کے شروع تک جاری رہتے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث فصل کا دورانیہ بھی متاثر ہوچکا ہے۔
مدبرشاہ جو کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ٹماٹر کاشت کر رہے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث وہ اپنی فصل کو محفوظ رکھنے کے لیے دن رات محنت کر رہا ہے۔ ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے کے لیے انھوں نے ہائبرڈ بیجوں کی طرف رخ کیا اور گرمی کے لیے زیادہ موزوں پھل اور سبزیاں لگائیں۔
مدبر شاہ ’’ہائبرڈ فصل موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے بھی موضوع ہے۔ جیسے ہائبرڈ ٹماٹر ہے۔ اس کے پتے مضبوظ ہوتے ہیں جو بارش کے بعد دھوپ سے ڈھکا رہتا ہے اور سڑنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ ہائبرڈ فصل کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کی پیداوار دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔ عام ٹماٹر سے ہم روزانہ ۳۰ سے ۴۰ کلو حاصل کرتے تھے لیکن ہائبرڈ پیداوار سے روزانہ کے حساب سے ۷۰ کلو تک حاصل کرتے ہیں‘‘۔
اگرچہ سبزیاں اور تازہ پھل خیبر پختونخوا کے کسانوں کے لیے ایک منافع بخش فصل ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا خطرہ ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ بے وقت بارشوں اور سیلاب سے ان کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 22 فیصد پیداوار کا تعلق زراعت سے ہے ليکن زراعت کے شعبے میں ہماری پیداوار کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔
انسانی غذائیت کے ماہر ڈاکٹر افتخار عالم کا کہنا ہے کہ زراعت میں فرسودہ نظام، بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث زرعی زمین کی کمی، پانی کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور دہشت گردی کے باعث زرعی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہی چیلینجز کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی مستقبل میں خوراک کی کمی کا سامنا کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر افتخار عالم ’’اگر زراعت کے شعبے کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس نا کیا گیا تو مستقبل قریب میں خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دیگر تمام وجوہات کے علاوہ زراعت کے شعبے میں لاعلمی، کسانوں کی کم تربیت اور اس بارے میں اگاہی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں زرعی شعبے کا خاص کردار ہوتا ہے۔ اس شعبے میں اصلاحات اور جدت ضروری ہے‘‘۔
زرعی ماہرین کے مطابق خوراک کی کمی نہ صرف پاکستان کی برآمدات کو متاثر کرتی ہے بلکہ پیداوار مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے اور ملک میں خوراک کی قلت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور کسان شوکت ایاز کا کہنا ہے کہ بارشوں کی وجہ سے سٹرابیری کی فصل میں ان کو نقصان اٹھانا پڑا۔
شوکت کا مہنا ہے کہ گزشتہ سال ہم نے تین ایکڑ زمین پر ٢ لاکھ روپے خرچ کیے۔ بارشوں کی وجہ سے پورے کھیت زمین کے اندر دھنس گئے اور پیداوار میں نقصان ہوا۔ ہم نے پوری فصل کو ایک لاکھ روپے میں بیچ دیا۔ لیکن اب ہائبرڈ فصل کو کاشت کیا ہے کیونکہ یہ پودے سخت موسم کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں”۔
دوسری جانب کسانوں نے درپیش چیلنجوں کی مذمت کی ہے جن میں کھاد اور بیج کی قیمتوں میں گزشتہ دو سالوں کے مقابلے میں اضافہ اور مارکیٹ میں مصنوعات کی کم قیمت شامل ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے تربیت نا دینا بھی زراعت کے شعبے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ مدبر شاہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بعد مہنگائی ایک اور بڑا دباؤ ہے۔
مدبر شاہ ” ڈی پی کچھ عرصہ پہلے پانچ ہزار کی بوری ملتی تھی جو کہ اب 11 ہزار پانچ سو روپے میں ملتا ہے۔ فصل کو کیڑے سے بچانے کے لیے سپرے جو پانچ سو روپے میں ملتا تھا اب مارکیٹ میں پندرہ سو روپے کا ہے۔ ملک میں جاری مہنگائی کی وجہ مزدور کی اجرت کے علاوہ فصل کو محفوظ رکھنے والی دوائیاں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ کھاد کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں”۔
خیبرپختونخوا کی کراپ رپورٹنگ سروس (CRS) کے مطابق، صوبے میں زراعت کو موسمیاتی تبدیلیوں جیسے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، شدید خشک سالی اور شدید بارشوں کے اثرات کا سامنا ہے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ موسم کی یہ اچانک اور شدید تبدیلیاں نہ صرف اس صوبے میں پیدا ہونے والی خوراک کے معیار پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ اس کی کمی بھی ہوتی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خیبرپختونخوا حکومت نے موسمیاتی شعبے میں جدید زراعت پر کام شروع کر دیا ہے۔