گلوبل وارمنگ کے اثرات، مہمند میں بارشوں کے پانی سے زرعی ترقی کی نئی راہیں بن سکتی ہیں
سعید بادشاہ مہمند
منصوبہ بندی کی جائے تو قبائیلی ضلع مہمند میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا تدارک اور بارش و سیلاب کو فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے پہلے متاثرہ علاقوں میں حلیمزئی، خویزئی، بائزئی، پنڈیالئی اور صافی تحصیلیں شامل ہیں جہاں پر بارہ سال پہلے زیر زمین پانی کا ذخیرہ تیزی سے نیچے چلا گیا۔ ڈگ ویلز اور ٹیوب ویلز خشک ہونے سے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین بنجر ہوگئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امسال زیادہ بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں واٹر ٹیبل اوپر آگیا اور آبنوشی کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اگر بارانی سمال ڈیمز اور چیک ڈیمز بناکر سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا گیا تو علاقے میں زرعی انقلاب آئیگا۔
بارہ سال سے خشک سالی کی کیفیت اور زیر زمین واٹر ٹیبل نیچے جانے سے قبائیلی ضلع مہمند کی چار تحصیلوں حلیمزئی، خویزئی، بائزئی اور پنڈیالئی جبکہ صافی کے بعض علاقوں میں آبنوشی اور آبپاشی میں پانی کا بحران پیدا ہوگیا۔ زرعی زمینیں بنجر ہو کر رہ گئی ہے۔جس سے ہزاروں افراد کو چند ماہ کے دوران بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔
فلاحی تنظیم مہمند ویلفئیر آرگنائزیشن کے صدر میر افضل مہمند بتاتے ہیں کہ زراعت کے لئے مشہور اور زرعی اجناس کی پیداوار کابڑا حصہ دینے والی تحصیل حلیمزئی میں موسمیاتی تبدیلی سے دس سال کے دوران نوبت یہاں تک پہنچی کہ کوز گنداؤ اور بابی خیل میں بعض خاندانوں کے لئے پینے کا پانی ناپید ہونے کی وجہ سے اپنے علاقے سے نقل مکانی کی۔ اب شدید گرمی تو پڑتی ہے مگر بارشوں اور سیلابوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس سے علاقے میں خشک کنووں میں پانی آگیا ہے اور وقتی طور پر آبنوشی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ اب ضروری ہے کہ متاثرہ علاقوں میں زراعت کو بھی بحال کیا جائے۔ ہماری نظر میں اس کا واحد حل بارش و سیلاب کے پانی کو سٹور کرنا ہے۔
علاقے کے معمر افراد کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے گرم و سرد تغیرات کا شکار قبائیلی ضلع مہمند میں امسال یعنی 2024 کو کافی بارشیں ہوئی۔ جس میں سیلابوں کے بھی بیس اور تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹے۔ موسلادھار اور شدید بارشوں سے کچے مکانات گرنے اور برساتی نالوں میں طغیانی سے جانی و مالی نقصان بھی ہوا۔ مگر بارانی زرعی زمینیں خوب سیراب ہوئی جس کی بدولت ایک عشرے بعد لوگوں کو بارانی زمینوں سے گندم فصل کی حاصلات ملی اور کئی ماہ تک روٹی میں خود کفیل ہوگئے اور مویشیوں کا بھوسہ بھی حاصل ہوا۔
ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت شعبہ توسیع ضلع مہمند آصف اقبال نے گلوبل وارمنگ کی موجودہ صورتحال میں بارشوں میں اضافے کو زراعت کے مستقبل کے لئے ایک مثبت اشارہ قرار دیا اور ٹی این این کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے قبائیلی ضلع مہمند کو پہنچنے والے نقصانات سے بچاؤ اور کمی حفاظتی اقدامات کے بدولت ممکن ہے۔
انہوں نے کاشتکاروں کو مشورہ دیا کہ گندم، مکئی اور جوء کے علاوہ ہر سبزی کی کاشت کے لئے جدید ہائبریڈ بیج کا انتخاب کریں۔ کیونکہ ہائبریڈ تخم سخت گرمی اور سورج کی شعاعیں برداشت کرسکتا ہے اور فصلوں و سبزیات کی بڑی مقدار میں حاصلات دے گی۔
انہوں نے کہا کہ کاشتکاورں کو بھی چاہیئے کہ وہ جدید ڈرپنگ ایریگیشن کے ذریعے فصلوں کو پانی دیا کریں۔ ہائی ایفیشنسی ایریگیشن سے پچاس فیصد پانی کی بچت ہوگی۔ جس پر اضافی فصل اگائی جاسکتی ہے۔ انہوں لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ضرورت سے زیادہ پانی نہ نکالے۔ حسب ضرورت واٹر پمپپس اور ٹیوب ویل چالو رکھیں۔
اپنی مدد آپ کے تحت ڈگ ویل، سولر اور ایریگیشن سے کاشت کاری کرنے والے مقامی لوگ بھی موسمیاتی تبدیلی سے شناسائی اور اس میں رہ کر اپنا پیشہ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہاں پر موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔حکومت اور پراجیکٹس کو چاہیئے کہ وہ سیلابی ریلوں سے آبادی اور زرعی زمینوں کو بچانے کے لئے حفاظتی پشتوں اور سمال ڈیمز بنانے کے زیادہ منصوبے شروع کریں۔
محکمہ زراعت، زمین اور پانی کے تحفظ ڈیپارٹمنٹ کے انجینئر اسد خان نے بتایا کہ ضلع مہمند میں پانی کی سطح نیچے جانے سے کاشتکاری اور لائیو سٹاک کو دس سال میں بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس کا واحد حل پانی کی دستیابی ہے۔جس کا واحدذریعہ بارشیں ہیں۔ حکومتی اقدامات کے ساتھ لوگوں کو بھی چاہیئے کہ وہ پانی کی اہمیت کا اندازہ لگائے۔ اپنے گھر کی چھتوں اور صحن میں پڑنے والی بارش کے پانی کو گھروں میں زیر زمین واٹر ٹینک بنا کر یا پرنالوں کے نیچے ڈرموں میں ذخیرہ کرنے کا بندوبست کرے۔ اس سے گھریلو خواتین بھی کچن گارڈننگ کرکے گھریلو ضرورت کی سبزیاں کاشت کرسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ گھروں سے بارش کا پانی نکالنے کی بجائے اگر گہرے بور کھود کر اس میں ڈال دے۔ تو یہ زیرزمین پانی کے ذخیرے میں جلد شامل ہو کر پانی کی سطح مستحکم کر کے اوپر آئیگی۔ اور گاؤں میں سیلاب بھی نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ Soil and Water Conservation نے ضلع مہمند میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ڈرائی زون تحصیل حلیمزئی، تحصیل خویزئی بائزئی اور تحصیل پنڈیالئی میں واٹر ٹیبل اوپر لانے کے لئے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ کاشتکاری بحال رکھنے کے لئے مختلف علاقوں میں بارانی چیک ڈیمز، بڑے واٹرٹینک بنانے سمیت 40 تک چھوٹے منصوبے مکمل کئے ہیں۔ جس سے حالیہ بارشوں سے میں بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ بعض جگہوں پر خشک کنویں بھی آبنوشی کی ضرورت پوری کرنے کے قابل بن گئے ہیں۔
ضلع مہمند میں موسم بہار کے آخر سے شروع ہونے والی بارشوں کا سلسلہ موسم برسات تک جاری رہا ہے۔ زیادہ مقدار میں بارشوں سے پہاڑوں میں سالوں سے خشک چشمے دوبارہ ابلنے لگے ہیں جو بارش کے بعد کئی روز تک بہتے ہیں۔ یہ چشمے پہاڑی وائلڈ لائف کی آبنوشی کا بھی اہم ذریعہ بنے ہے۔ اسی طرح آبپاشی و آبنوشی کے کنووں اور بورنگ ڈگ ویلز میں بھی پانی کی بلند ہوتی سطح نوٹ کی گئی ہے۔ جس سے بعض علاقوں میں میں بارہ سال بعد جزوی طور پر کاشتکاری بحال ہو رہی ہے۔
انجمن زمینداران مہمند کے صدر ملک گلاب شیر مہمند نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ ضلع مہمند میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے پہلے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس لئے ہم نے متاثرہ تحصیلوں کے کاشتکاروں کی ایک تنظیم بنائی ہے۔ جس کے باقاعدہ مشاورتی اجلاس منعقد ہوتے ہیں جس میں بڑے چیلنجز کی نشاندہی اور حل پر بحث مباحثہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی سے آگاہی کے لئے رجسٹرڈ کسانوں کا واٹس ایپ گروپ بھی بنایا گیا ہے جس میں آپس میں رابطہ کاری تیز ہوئی ہے۔ کسان اپنے مسائل، فصلوں کے امراض، سبزیوں کے ریٹ اور موسم کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق قبائیلی ضلع مہمند ملک کے ان پانچ اضلاع میں شامل ہے جس سے بارش کا پانی تیز سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس لئے تحصیل حلیمزئی، تحصیل خویزئی و بائزئی اور تحصیل پنڈیالئی میں گرے ہوئے واٹر ٹیبل اوپر لانے کے لئے جگہ جگہ چک ڈیمز، سمال ڈیمز اور سٹوریج ٹینکس بنانے چاہیئے۔ جس سے ان متاثرہ علاقوں میں کاشتکاری دوبارہ بحال ہوجائیگی اور سینکڑوں لوگ برسر روزگار ہوجائینگے۔
موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے میں درخت اور جنگلات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تحصیل حلیمزئی میں گنداؤ بارانی ڈیم غلنئی، چاندہ سمال ڈیم،پنڈیالئی بارانی ڈیم، پڑانگ غار موٹو شاہ بارانی ڈیم بھرنے سے زراعت و آبنوشی پر مثبت اثرات پڑے اور ڈیمز کے قریبی علاقوں میں جنگلات لگانے کے لئے ماحول سازگار بن گیا ہے۔
اس بارے میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر ضلع مہمند شاہد انور نے کہا کہ ہمارا ملک گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات اور نقصانات کے حوالے سے پانچویں چھٹے نمبر پر ہیں۔ اس سے بچاؤ کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس میں سب سے سستا اور آسان طریقہ جنگلات اور درخت لگانا ہے۔
محکمہ جنگلات ضلع مہمند نے صوبائی حکومت کی خصوصی شجرکاری مہم میں مختلف مقامات پر پودے لگائے ہیں۔ اور بلین پلس ٹری شجرکاری مہم تاحال جاری ہے۔ بارانی ڈیمز کے اطراف میں لگائے گئے جنگلات پانی کی دستیابی کی بدولت جلد ہی علاقے میں ہریالی لائیگی۔ مگر اس کو کامیاب بنانے کے چیلنج میں عوامی تعاون بہت ضروری ہے۔
پودوں کی دیکھ بال، ممکن حد تک سیراب کرنا اور چھوٹے پودوں کی حفاظت کے لئے مال مویشی کی آزاد چرائی کا سلسلہ روکنا ہوگا۔ کیونکہ مال مویشیوں کی آزادانہ چرائی سے پودوں کی نشونما نہیں ہو پاتی اور بھیڑ بکریوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگلات کے ایس او پیز کے مطابق مخصوص جگہوں اور مخصوص اوقات میں مویشی چرائے جائے تاکہ نئے لگائے گئے پودے نشونما پاکر درخت بن جائے۔ کیونکہ یہی پودے درخت بن کر ماحول کو ٹھنڈا رکھتے ہیں اور سیلاب کی صورت میں زرعی زمینوں کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں۔