خیبرپختونخوا میں کلائمیٹ چینج کے بڑھتے خطرات: 39 دنوں میں 27 بچے جانبحق
کیف آفریدی
خیبر پختونخوا میں شدید موسمی واقعات نے 39 دنوں میں 27 بچوں کو نگل لیا، مون سون میں طوفانی بارشوں اورسیلابوں کی وجہ سے صوبے میں سینکڑوں گھر تباہ ہوئے۔ پروینشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم آے) کی جاری ہونے والی رپوٹ کے مطابق یکم جولائی سے 08 اگست تک طوفانی بارشوں، سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے صوبے کے مختلف اضلاع میں کل 61 ہلاکتوں میں 27 بچے 22 مرد اور12 خواتین شامل ہیں، رپورٹ میں 102 لوگوں کے زخمی ہونے اور 704 گھروں میں 501 جزوی اور 203 مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ دوسری جانب علاقائی محکمہ موسمیات پشاور کی جانب سے 20 اگست تک طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی پیشنگوئی کر دی ہے۔ محکمے کے مطابق عالمی درجہ حرارت کے بڑھنے سے پچھلے ایک دہائی میں خیبر پختونخوا میں شدید موسمی واقعیات میں اضافہ ہوا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین اور اقوام متحدہ کی کئی اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ شدید موسمی واقعیات جیسے سیلاب، شدید بارشیں، خشک سالی، گرم ہوائیں یا ہیٹ ویوز میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ 30 جولائی کی صبح تقریبا چار بجے کا وقت تھا، تیز بارش ہو رہی تھی، جب میں نے ایک زور دار آسمانی بجل کی آواز سنی، چند لمحوں کے بعد لوگوں کا شور سنائی دیا میں بارش میں گھر سے نکلا تو معلوم ہوا کہ گاؤں میں کسی گھر پر آسمانی بجلی گری تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ میرے بہنوئی امجد کے گھر سیلابی ریلہ داخل ہوا ہے اور امجد کا پورا خاندان تہہ خانے میں ڈوب گیا ہے۔ ضلع کوہاٹ درہ آدم خیل کے 70 سالہ ملک ابرار نے ٹی این این کے ساتھ 30 جولائی کو پیش آنے والے دردناک واقع کی کہانی شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ میری بہن، بہنوئی اور ان کے بچوں سمیت خاندن کے 10 افراد تہہ خانے میں ڈوب گئے۔
درہ آدم خیل کے اولڈ بازی خیل گاؤں میں پیش آنے والے واقعہ اور بروقت ریسکیو کی کاروائی کے حوالے سے ملک ابرار نے کہا کہ موسلادار بارش نے امدادی سرگرمیوں میں خلل ڈالا، پڑوسی اور ریکسیو 1122 کی ٹیم موقع پر پہنچ چکے تھے لیکن تب بہت دیر ہوچکی تھی۔ ملک نے ٹی این این کو بتایا یہ ایک دردناک واقعہ تھا ریکسیو آپریشن مکمل ہوا اور میری بہن سمیت 10 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ خوش قسمتی سے اس خاندان میں وسیم جو کہ امجد کا بھائی تھا اور انکی فیملی اس وقت چھت پر تھے اس لیے وہ اس حادثے سے بچ گئے۔ مرنے والوں میں 6 بچے، 3 خواتین اور 2 مرد شامل تھے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق خیبر پختونخوا میں بیشتر اموات شدید بارشوں کی وجہ سے گھروں کے چھت گرنے سے ہوئی ہیں نیز سیلابی ریلواور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بھی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان انور شہزاد کے مطابق شدید بارشوں کی وجہ سے ضلع مانسہرہ میں ہزاروں سیاح وادی کاغان اور مینر کے وادیوں میں تقریبا چھ دنوں تک پھنسے رہے تھے۔ جس کے بعد مقامی انتظامیہ کے ساتھ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ساتھ مہندری کے علاقے میں منور ندی پر ایک عارضی فٹ پاتھ بنایا جس کے بعد پیدل لوگوں کو اپنی منزلوں کی طرف جانے میں مدد ملی۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انور شہزاد نے بتایا کہ ضلع مانسہرہ میں دو درجن ہوٹل ، مکانات اور بجلی کے کئ ٹربائن بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ اسی طرح ندی نالوں اور سیلاب کی صورتحال کے باعث جنوبی وزیرستان اور ٹانک روڈ بھی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا جو کہ اب دوباراہ کھل گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں مون سون خونی کیوں بن جاتا ہے ؟
خیبر پختونخوا میں مون سون سیزن میں بارشوں کا ہونا معمول کی بات ہے لیکن کلائمیٹ چینج کی بدولت بارشوں کے اوقات میں تبدیلی اور شدت ایک سنگین خطرہ بننے جا رہی ہے۔ پشاور میں محکمہ موسمیات کے حکام نے ٹی این این کو بتایا کہ پچھلے 5 سالوں سے بارشوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے، سردیوں کی طویل مگر ہلکی بارشیں اب اپنے مقررہ اوقات میں نہیں ہوتی، دسمبر اور جنوری کی طویل ہلکی بارشیں اب مارچ اپریل میں داخل ہوچکی ہیں، جو بادل 4 دنوں میں برستے تھے اب 2 گھنٹوں یا ایک دن میں برستی ہیں۔
حکام نے ٹی این این کو بتایا کہ خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے دوسروں صوبوں میں بھی یہ حال ہے ہلکی اور طویل بارشوں کا 2 گھنٹوں ہونا فلیش فلڈ کی شکل اختیار کرتا ہے جو آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ حکام نے بتایا درجہ حرارت میں اضافے کی بدولت گلیشئرز کے پگلنے سے بھی سیلاب کا خطرہ بڑھا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ صوبے میں کلائمیٹ چینج کی وجہ سے سیلابوں کے درمیان طویل وقفہ اب کم ہو رہا ہے، بارشوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے اگر ہم اپنے ریکارڈ کو دیکھیں تو بارشوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جو تشویشناک ہے۔ مون سون میں سیلاب کا آنا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں مون سون سیزن ہی میں بڑے سیلاب آتے ہیں، 2010 سیلاب کے بعد مون سون میں بارشیں سیلابی شکل اختیارکر جاتے ہیں لیکن سال 2022 کا سیلاب ایک آئینہ تھا جس نے پاکستان میں 3 کروڑ سے زیادہ لوگوں متاثر کیا تھا۔ خونی سیلاب میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک جبکہ تقریبا 10 لاکھ گھر تباہ ہوئے تھے، ملکی معشت کو قریب 15 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ لیکن حال ہی میں مارچ اور اپریل کے مہینوں میں خیبر پختونخوا میں شدید ریکارڈ بارشیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے کئی لوگ ہلاک اور زراعت کو نقصان پہنچا تھا۔
کلائمیٹ چینج کے سامنے بے بس بچے
حالیہ مون سون بارشوں سے 39 دنوں میں 27 بچوں کے ہلاک ہونے کی خبریں تشویشناک ہیں جو کئی سوالوں کو جنم دے رہی ہیں، لیکن دوسری جانب پوری دنیا میں ماحولیاتی بحران خصوصی طور پر کمزور طبقوں کو ہی زیادہ متاثر کر رہی ہیں۔ جس طرح خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں شدید موسمی واقعات سے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ریاستی مشینری ناکام ہے وہاں پوری دنیا میں خصوصی طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنے میں ناکام ہیں۔ اقوام متحدہ کی ادارے بچوں کے لئے مختص ادارے یونیسف کی 2021 رپورٹ کے مطابق 1 ارب بچے ماحولیاتی بحران سے خطروں کی ذد میں ہیں۔ پاکستان جہاں غربت کی بدولت 3 کروڑ بچے بنیادی تعلیم کے حق سے محروم ہیں وہاں کلائمیٹ چینج ملک کے مستقبل کے لئے ایک ایسا خطرہ بنتا جا رہا ہے جسکا مقابلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے آب و ہوا اور ماحول پر نظر رکھنے والی عالمی ادارے انٹر گورمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج آئی پی سی سی نےدنیا کے پالیسی میکرز کو بار بار اپنی تحقیقاتی رپورٹس کے زریعے آگاہ کیا ہے کہ کلائمیٹ چینج اب ایک ایسا خطرہ ہے جسکا فوری حل تلاش کرنا ناگزیر ہے۔ آئی پی سی سی کی رپورٹس میں شدید موسمی واقعیات میں اضافے کے حوالے سے 2021 میں آگاہ کیا تھا، رپورٹ میں انڈیا اور پاکستان میں سیلاب، خشک سالی، طوفانی بارشوں اور ہیٹ ویوز میں اضافہ کے حوالے تفصیل موجود ہے ۔
ملک ابرار نے ٹی این این کو بتایا کہ ہمارے خاندان کا حال اور مستقبل دونوں تباہ ہوا، انہوں نے اپنے بانجوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا صدمہ ہے جس کو شاید ہی ہم بھلا سکے، پورے علاقے کے لوگ بچوں کی ہلاکت پر غمگین ہیں۔