خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزم

‘جہیز میں موٹر سائیکل نہ ملنے پر سسرال والوں نے طلاق دے دی’

بشریٰ محسود، ثناءگل

‘جہیز میں پہلے موٹر سائیکل تو نہیں لیا تھا لیکن شادی کے ایک مہینہ بعد میرے والد نے میرے شوہر کیلئے بطور جہیز موٹر سائیکل خرید کر دیا، لیکن اس کے بعد بھی میرے سسرال والے مجھے ذہنی  اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور بات یہاں تک پہنچ گی کہ مجھے طلاق دے دی گئی’

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی سلمہ شاہ کی شادی تقریباً 18 میہنے پہلے ہوئی تھی۔وہ شوہر کے ساتھ بخوشی زندگی گزار رہی تھی لیکن شاید اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جہیز کا سامان نہ دینے پر سسرال والے ان کی زندگی عذاب بنا لیں گے اوریہ عذاب طلاق پر ہی تمام ہوگی۔

پرائیوٹ سکول کی استانی اور ایک بچے کی ماں سلمہ شاہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شادی کے دوران جہیز کےسامان نے ان  سمیت اکثر لڑکیوں کی زندگی برباد کردی ہے،کیونکہ کہ وہ خود ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اور والدین جہیز کا سامان لینے کی استعاعت نہیں رکھتے چنانچہ اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے ۔

اگر ایک طرف پختون معاشرے میں بہت سے لوگ جہیز مانگ کر اس کو اچھا رواج قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو نہ صرف جہیز کو ایک لعنت قرار دیتے ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ جہیز سمیت تمام غلط رسومات کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پھیلائی جائے تاکہ ان غلط رسومات کا خاتمہ ہو۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سہیل کہتے ہیں کہ جہیز ایک مصیبت اور دو خاندانوں کے درمیان دشمنی کا سبب ہے، جس کے تمام تر برے اثرات خواتین پر مرتب ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بہت سی لڑکیاں غربت کی وجہ سے ہی گھروں میں پوری زندگی گزار دیتی ہیں۔ کیوں کہ ان کے خاندان والے جہیز کا سامان نہیں خرید سکتے،

جہیز میں زیادہ مطالبات رکھے جاتے ہیں، اور اکثر دیکھنے کو ملا ہے کہ لڑکیوں کے والدین خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور ایسے بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ شادی کے بعد جہیز کا سامان نہ دینے پر یا جہیز کا سامان کم  دینے پر طلاق دی جاتی ہے ۔ جہیز ہر لحاظ سے ایک لعنت ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وکیل ثناء اللہ شمیم نے جہیز کو ایک گناہ اور جہالت کا عمل قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بیٹی کو عزت کے ساتھ گھر سے رخصت کرے لیکن غربت کی وجہ سے وہ زیادہ سامان نہیں خرید سکتے اور جہیز کیلئے وہ ایک دوسرے سے ادھار لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جہیز کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، لوگوں نے جو کہنا ہے وہ کہنے دیں، لیکن جہیز کی یہ بیماری اپنے معاشرے سے ختم کرنا ضروری ہے۔اور جب تک باہمت لوگ اس لعنت کو ختم کرنے کیلئے آگے نہیں آئیں گے تو یہ ممکن نہیں۔یہ بیمار معاشرے ہیں اور بیمار معاشرے میں اس قسم کی بیماریاں مظبوط ہوتی جارہی ہیں۔

ہمارے پاس عدالتوں میں زیادہ تر ایسے کیسز آتے ہیں جس میں جہیز کی وجہ سے کئی خاندان تباہ ہوئے ہیں۔

ثناء اللہ شمیم کہتے ہیں کہ اس کیخلاف لوگوں میں اگاہی پھیلانا ضروری ہے تاکہ لوگ خود اس کا راستہ روکیں۔

دوسری جانب علمائے کرام بھی جہیز کو  معاشرے کا غیر ضروری رسم سمجھتے ہیں  اور  کہتے ہیں کہ جہیز دو صورتوں میں ناجائز اور ایک صورت میں جائز ہے۔

پشاور سے تعلق  رکھنے والے امام مفتی اسحاق عثمانی کا کہنا ہے  کہ ہمارے معاشرے میں  بہت  سے گھرانے ایسے ہیں جوکہ جہیز کے معاملے میں اسلام کے احکامات پر عمل نہیں  کرتے  جس کی بڑی وجہ نمود و نمائش کرنا اور معاشرے کی نظروں  میں خود کو گرنے سے بچانا ہے۔

بقول عثمانی  جہیز دو  صورتوں میں ناجائز قرار دیا گیا ہے جبکہ  ایک صورت میں جائز ہے ‘ جہیز ان دو صورتوں میں ناجائز ہے جب لڑکے کے گھر والوں کی طرف سے  کوئی مطالبہ ہو جس میں لڑکی کے گھر والوں ، گھر، جائیدار  یا گاڑی کا مطالبہ کیا گیا ہو، دوسرا یہ کہ  اگر کسی لڑکی کے والدین اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی بیٹی کے لیے  سامان کا بندوبست کرے  اور اس کے لیے وہ  کسی سے سود  وغیرہ لیا ہو یہ بھی ناجائز ہے’

انہوں  نے کہا کہ جہیز کی جائز صورت میں ہمارے ساتھ بنی پاک ﷺ کی مثال موجود ہے  جس میں اگر  کسی لڑکی کے والدین اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہتے ہے تو یہ جائز ہے۔

انکا مزید کہنا ہے کہ جو گھرانے اپنی بیٹی کو جہیز  نہیں دیتے  تو اس لڑکی کو سسرال میں کمتر سمجھا جاتا ہے  جبکہ  جو گھرانے اپنی بیٹی  کو جہیز دیتے ہیں  تو انکو بعد میں جائیدار میں  حصہ نہیں دیا جاتا  جوکہ ایک غیر شرعی رسم ہے۔

مفتی اسحاق عثمانی کے مطابق ہمارے ملک میں جہیز کے متعلق کوئی شرعی قانون  موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ اس قسم کے  غیر ضروری رسم  معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں  اگر حکومت  کی طرف سے  کوئی شرعی قانون نافذ ہوجائے  تو جہیز جیسی غیر ضروری چیزوں پر آسانی سے پابندی لگائی جاسکتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button