متحدہ عرب امارات میں مزدوری کرکے کمانے والے دوسروں کے لیے سہارا بن گئے
سٹیزن جرنلسٹ دوست علی
وزیرستان کا نام سنتے ذہن میں دہشت گردی, پسماندگی اور مایوسی کے احساسات ابھرنے لگتے ہیں لیکن وہاں کافی ایسے مرد مجاہد بھی ہے جو اپنے لیے روزی روٹی کمانے کی غرض سے عرب امارات میں کئی سالوں سے مسافر ہے جو نہ صرف اپنے پیاروں کا پیٹ پال رہے ہیں بلکہ دوسروں کا سہارا بھی بنے ہیں۔ انہیں لوگوں میں سے شامل تحصیل شیواہ شمالی وزیرستان سے تعلق سے رکھنے والے دوستوں نے اپنی استطاعت کے مطابق تقریباً ایک سال پہلے بنیاد مشال نامی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی جو آج تک لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ مشال فلاحی تنظیم ذاتی اور اور چندے کے فنڈ سے اب تک شیواہ اور چپری وزیران میں ہزاروں گھروں کی روشنی جلا چکے ہیں۔ سکول کے بچوں کے لیے یونیفارم سے لیکر ہر عید پر کپڑے اور عید کی قربانی کے ساتھ بہت سے مریضوں کے اخراجات بھی اٹھا چکے ہیں۔
مشال فلاحی تنظیم کے ایک بانی رکن سلیم ملک نے, جو کہ عرب امارات میں کام کرتے ہیں ٹی این این سے بات چیت کے دوران کہا "ہم عرب امارات میں کچھ مسافر دوست رہتے ہیں اور ہماری آپس میں کبھی مہینوں میں ایک بار ملاقات ہوتی رہتی تھی بعد میں ہماری ایک سوچ بنی کہ جس طرح ھم عرب امارات میں فنڈنگ کرتے ہیں اسی طرح کیوں نا ھم ایک دوسرے طریقے سے فنڈنگ شروع کریں جسمیں اسی طرح مجبوروں کی امداد کریں گے جس طرح عرب امارات میں پشتون فنڈ جمع کرتے ہیں کہ جب کوئی پشتون فوت ہوجائے تو انکے لواحقین کے لئے اور انکے ڈیڈ باڈی کو فیملی تک پہنچانے کے لئے فنڈ جمع کرتے ہیں جس سے یتیم بچوں کی کفالت ہوسکتی ہے’
‘پھر ہمارا اس فیصلے پر اتفاق ہوگیا کہ ایک تنظیم بنا لیتے ہیں جسے ھم غریب اور مستحقین کی مدد کرسکے اور آخر میں ہم مشال فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھنے پر رضامند ہوئے’ سلیم ملک نے کہا۔
کسی بھی تنظیم یا کام کی ابتداء یقیناً بہت مشکل ہوتی ہے۔ مالی مشکلات کے علاوہ علاقائی اور تنظیمی سوچ کو برقرار رکھنا ایک امتحان ہوتا ہے۔ مشال فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھنے والے دوستوں نے ان حالات کا سامنا کیسے کیا۔ اس حوالے سے سلیم ملک کہتے ہیں۔
"شروعات بلکل کٹھن اور مشکلات بھی بہت تھے کیونکہ ایک ایسا ملک تھا جسکے آئین و قانون میں فنڈ جمع کرنے پر سخت پابندی ہے اور ایک دو ہی چریٹی فاونڈیشن کو اجازت ہوتی ہے پورے ملک میں وہ بھی ملک کے ایک زمہ دار شخص کو اجازت ھوتی ھے باقی کسی کو بھی نہیں تو ایسے سخت قانون میں بہت مشکل تھا ایک منظم تنظیم کو چلانا اور زیادہ مصروفیات کی وجہ سے وقت کا نہ ملنا کیونکہ جب بھی میٹینگ کرنا ہوتی سارا دن اس میں مصروف ہوتے لیکن پھر بھی ان مشکلات پر قابو پایا ہے’
سلیم ملک نے کہا کہ مسافر دوستوں کے حوصلے بلند تھے ایک سال تک اپنے جیبوں سے چلایا وھی دوست اپس میں فنڈ جمع کرتے تھے مہینے میں ھر دوست نے اپنے اوپر 20 درھم لازم قرار دے دیئے ہیں اور آج تک تقریبا 20 لاکھ تک مشال فلاحی تنظیم نے امداد پہہچایا ہے جسمیں بہت سے بچے سکولوں میں پڑھ رھے ہیں، بہت سارے بزرگوں کا علاج کیا, عید کے لئے بچوں میں سامان تقسیم کرتے ہیں ماہ رمضان میں ھر مستحق خاندان کو راشن پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور 70 معذور افراد میں وہیل چیئر بھی تقسیم کرچکے ہیں۔