”ہر 100 میں سے 5 لوگ آتے جاتے ماسک اور سینیاٹائزر کا ضرور پوچھتے ہیں”
مصباح الدین اتمانی
کاروباری حضرات کہتے ہیں کہ کورونا وباء کی دوسری لہر کے شروع ہوتے ہی انہوں نے فیصل آباد سے مختلف کوالٹی اور رنگ کے ماسک بڑی تعداد میں منگوائے ہیں۔
پچھلے سال جب کورونا وباء مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچی تو نہ صرف یہاں تیزی سے پھیل گئی بلکہ بہت سے لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے جان سے بھی گئے۔
کورونا نے جہاں بہت سارے کاروباروں کو نقصان پہنچایا ہے وہاں بہت سے نئے کاروبار بھی پروان چڑھے، ان میں سے ماسک اور ہینڈ سیناٹائزر سرفہرست ہیں۔
محکمہ صحت کی ماہرین نے کورونا وباء سے بچاو کیلئے جب حفاظتی ماسک اور ہینڈ سیناٹائزر کے استعمال کو ضروری قرار دیا تو یہ مصنوعات مارکیٹ سے غائب ہو گئیں، کچھ میڈیکل سٹورز میں اگر دستیاب بھی تھیں تو قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔
فیاض احمد پشاور کے فردوس بازار میں حفاظتی ماسک کا کاروبار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کورونا وباء آنے کے بعد ان کا کاروبار بہت بہتر ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب لاک ڈاون ہوا اور کورونا وائرس پھیلتا گیا تو زیادہ تر لوگوں نے سرجیکل ماسک پہننا شروع کر دیا، پہلے بہت کم لوگ ماسک استعمال کرتے تھے لیکن اب 100 میں سے پانچ لوگ ماسک کا ضرور پوچھتے ہیں، ”کورونا وباء کے ساتھ کاروبار بہت بہتر ہوا ہے۔”
فیاض احمد نے بتایا کہ کورونا کی پہلی لہر کے بعد جب ماحول ٹھیک ہوا تو ان کا کاروبار بھی ماند پڑ گیا لیکن اب دوسری لہر کیلئے انہوں نے بھرپور تیاری کی ہے۔
کورونا وباء کے ساتھ ماسک اور سیناٹائزر کا کاروبار اس قدر پھیلا ہے کہ پشاور شہر کے تمام مشہور مقامات، بس سٹاپ اور ہسپتالوں کے سامنے بچوں کی کثیر تعداد حفاظتی ماسک کے اسٹالز لگا کر بیٹھی ہوتی ہے۔
اس حوالے سے میڈیکل سٹورز کے مالکان شکوہ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے ان کے کاروبار پر اثر پڑا ہے۔
شاکر میڈیسن کمپنی کے سربراہ شاکر خان کہتے ہیں کہ پہلی لہر کے مقابلے میں حفاظتی ماسک کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔