خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزمکورونا وائرس

کرونا دوسری لہر نے زمینداروں کو کیوں پریشانی میں مبتلا کیا ہے؟

طارق عزیز، تارا اورکزئی

کرونا کے پہلے لہر کے بعد دوسرا لہر بھی بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، کرونا نے جہاں ہر شعبے کو متاثر کیا وہیں شعبہ زراعت کو بھی خوب رگڑا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کے ستر فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں لیکن زمینداروں کو شکایت ہے کہ کرونا کی وجہ سے ان کیلئے ممکن نہیں تھا کہ فروٹ اور سبزیاں بروقت مارکیٹ تک پہنچایا جاسکے۔

شانگلہ کا رہائشی (مالٹے) کے باغ کا مالک ذیشان بہت خوش تھا کہ پچھلے سال کے نسبت اس سال بہت اچھی فصل ہوئی ہے لیکن کرونا کے دوسرے لہر اور اس سے ممکنہ لاک ڈاون کی وجہ سے انہیں ڈر ہے کہ کہیں دوبارہ لاک ڈاون نہ ہوجائے اور مال مارکیٹ تک صحیح وقت پہ نہ پہنچ پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سارا سال اپنے مالٹوں کے باغ میں محنت کرتے ہیں اور اس سیزن کا بے چینی سے منتظر ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "اس سال بہت اچھی فصل ہوئی ہیں لیکن ہمیں کرونا کی وجہ سے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوبارہ لاک ڈاون کی وجہ سے ہماری فصلیں بروقت  منڈی نہ پہنچ سکے تو ہمیں بہت ذیادہ نقصان ہوجائے گا” مالٹے کی طرح اس سال آڑو کی فصل بھی بہت اچھی ہوئی تھی لیکن جب مارکیٹ جانے کیلئے تیار ہوگئی تو کرونا نے اپنے پنجے گھاڑ دیئے جس کی وجہ سے آڑو کا مارکیٹ پہنچانا اور پھر مارکیٹ میں اس کی فروخت مشکل ہوگئی جس کے نتجے میں باغ مالکان نے کافی نقصان کیا۔

سوات میں تقریبا 4ہزار ایکڑ زمین پر مشتمل آڑو کے باغات ہیں جس میں سالانہ تقریبا 60ہزار ٹن آڑو پیدا ہوتا ہے اس لاک ڈاون کی وجہ سے انہیں بھی بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس نقصان کے حوالے سے ہم نے آڑو کے ایک باغ کے مالک محمد یونس سے جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ میرے باغ میں 350 اڑو کے درخت ہے اس سال ہم نے مارچ کے آخر میں اپنے باغ کو  4 لاکھ روپے میں بیچ دیا۔ یونس کا کہنا تھا کہ عموما جون کے مہینے میں اڑو تیار ہوجاتے ہیں۔

جب بیوپاری نے مال کو منڈی میں پہنچایا اور اسے بیچ دیا تو واپس اکر انہوں نے کہا کہ میں نے کرونا کی وجہ سے نقصان کیا ہے-” اپنے ساتھ کچھ مشران کو لے کر ہمارے گھر ائے اور  سارے رسید وغیرہ دکھا کر مطالبہ کیا کہ مجھے اس مال میں نقصان ہوا ہے لہذا اپ مجھے ایک لاکھ روپے معاف کردیں تو ان  4لاکھ میں سے ایک لاکھ روپے ہم نے بیوپاری سے نہیں لئے۔ اس باغ پہ اپنی محنت کے علاوہ مزدور، کھاد،کٹائی وغیرہ کا بھی بہت خرچہ ہوتا ہے۔ محمد یونس نے کہا کہ” چار لاکھ میں سے ایک لاکھ  روپے تاوان کا مطلب ہے کہ ہم نے 25 فیصد نقصان کیا”

فروٹ کے ساتھ ساتھ سبزی پہ کرونا کے کیا اثرات تھے؟ اس حوالے سے سبزی کے ایک بیوپاری ساجد علی نے کہا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے مال منڈیوں میں نہیں پہنچ پارہاتھا اور مقامی ہوٹلوں کی بندش کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے ٹی این این سے بات کرتےہوئے کہا کہ ‘مٹر کے فصل کے دوران ہم نے باغات کا سودا کیا تھا اور انہی دنوں اچانک کرونا کا قصہ شروع ہوا جس کی وجہ سے ہوٹل وغیرہ بند ہوگئے ہم نے سبزی میں اس سال بہت نقصان اٹھایا ہے’

ان کاکہنا تھا کہ منڈیاں تو رش پر ہی چلتی ہے اور  کرونا میں جمع ہونے کی اجازت نہیں تھی’ شادی ہالز میں بھی سبزیوں کا استعمال ہوتا ہے اور شادی ہالوں کی بندش بھی نقصان کا سبب بنی’ ساجد علی مستقبل کے حوالے سے بھی فکر مند ہے کہ کہیں دوبارہ لاک ڈاون نہ ہوجائے، ان کا کہنا ہے کہ اگر کرونا نے دوبارہ سر اٹھایا تو پھر معاملہ بگڑجائے گا۔ زمیندار اور باغات کے مالکان حکومت سے بھی گلہ کرتے نظر آئے کہ حکومت نے ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔

اگر ایک طرف ذیشان اور محمد یونس زیادہ منافع نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں تو دوسری جانب کچھ ایسے لوگ بھی ہے جن کے لیے زمینداری گھر کا چولہا جلانے کا سبب بنی ہے۔ ان افراد میں ضلع کرم سے تعلق رکھنے والا اسرافیل بھی شامل ہے جو پولیو میں ڈیوٹی کرتا تھا تاہم لاک ڈاون کے دوران اسکی نوکری چلی گئی اور اس کے پاس واحد زمینداری رہ گئی جس نے اس کے گھر کا چولہا جلا رکھا ہے۔

اسرافیل کا کہنا ہے کہ ویکسین ڈیوٹی سے ہمارے گھر کے حالات اچھی طرح چل رہے تھے، ہمیں دو وقت کی روٹی اچھی طرح ملتی تھی اور ہمارے بچوں کی سکول فیس مدرسے کے پیسے بھی ہم اس سے ادا کرتے تھے لیکن جب نوکری ختم ہوئی تو اس کے بعد میرے پاس کوئی اور وسیلہ یا کام نہیں تھا جس سے میں اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا۔ بالآخر انہوں نے سوچ لیا کہ زمینداری کرنے سے کاشتکاری کرنے سے اچھا کوئی اور نہیں اور انہوں نے کاشت کاری شروع کی کچھ زمین انکی اپنی ہے اور کچھ اور لوگوں کی زمین میں فصل اگائی۔ ‘ پہلے ہم نے ٹماٹر کا تخم ڈالا لیکن ژالہ باری نے اس کو خراب کردیا پھر اسی جگہ ہم نے توری کا تخم لگایا اور اللہ نے اسی کو ہمارے رزق کا وسیلہ بنایا اور ساتھ میں بھنڈی اور کدو تخم بھی اگایا جس سے ہمارے گھر کا گزارہ چل رہا ہے’ اسرافیل نے بتایا۔

انہوں نے کہا کہ انکی زمینیں ماشاء اللہ زرخیز ہے اور پانی بھی موجود ہے تو زمینداری کو مستقبل میں بھی جاری رکھوں گا کیونکہ ایک تو تازہ سبزی مل جاتی پے اور باقی فصلیں بھی اچھی ہوجاتی ہے جس سے گھر کا خرچہ چل جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button