ذہنی سکون چاہیئے؟ تو لوگوں کو خوش کرنا چھوڑ دیں!

ایزل خان
2016 کی بات ہے، جب میں دسویں جماعت میں تھی، میرے دائیں جانب کا جسم فالج کا شکار ہوگیا۔ تقریباً دو ماہ تک نہ چل سکتی تھی، نہ بول سکتی تھی۔ میرے امتحانات بھی رہ گئے۔ جو لوگ میری عیادت کے لیے آئے، ان میں سے شاید صرف پانچ فیصد لوگ واقعی میرے لیے فکرمند تھے، باقی پچانوے فیصد لوگ تماشہ دیکھنے، منفی باتیں کرنے، اور مجھے مزید ذہنی دباؤ میں مبتلا کرنے آئے تھے۔
میں زیادہ تر بے ہوش رہتی تھی، لیکن جب ہوش میں آتی، تو لوگوں کی ایسی باتیں سنتی کہ دل دہل جاتا۔ ذہنی تناؤ کے باعث میں پاگلوں کی طرح روتی تھی۔ میری امی مجھے تسلی دیتی تھیں کہ کچھ نہیں ہوا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بہت مشکل وقت تھا، مگر ماں اور خاندان کی بے لوث محبت اور حوصلے سے میں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹی۔
میں نے خود کو مصروف رکھا، کتاب لکھی، تعلیم مکمل کی، نوکری کی، اور ان سب لوگوں سے رابطہ ختم کیا جو میری تکلیف میں خوش ہوتے تھے۔ آج کل ہر دوسرا فرد ذہنی بے چینی کا شکار نظر آتا ہے۔ رشتہ دار، دوست، حتیٰ کہ اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس بے چینی سے جسمانی و ذہنی بیماریاں جنم لیتی ہیں جیسے بلند فشار خون، بے چینی، دل کے امراض، جسم میں درد، مسلسل تھکن، بار بار رونا، وغیرہ۔
اور یہ مسئلہ اب نوجوان نسل میں زیادہ شدت سے بڑھ رہا ہے۔ آخر اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ہم اس بے سکونی سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے کیا ضروری ہے؟
سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق کمزور ہو چکا ہے۔ ہم اُس ذات پر ایمان تو رکھتے ہیں، مگر اُس کے احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ نے جن کاموں سے روکا ہے، ہم وہی روز کرتے ہیں، جھوٹ، فریب، دھوکہ، نشہ، زنا، اور نماز سے غفلت۔ اور جن کاموں کا حکم دیا گیا ہے، ان سے غافل ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ دل سے سکون چھن گیا ہے۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی دوسروں کو خوش کرنے میں گزار رہے ہیں۔ ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، کوئی ہماری تعریف کرے، ہمیں سراہا جائے۔ اس دوڑ میں ہم اپنا آپ کھو دیتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم کون ہیں، کیا چاہتے ہیں، ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
تیسری وجہ حسد اور مقابلے کی فضا ہے۔ فلاں نے نئی گاڑی لی، فلاں نے قیمتی لباس پہنا، فلاں کا گھر بہتر ہے اور اگر ہمارے پاس وہ سب نہ ہو تو ہم خود کو کمتر سمجھتے ہیں۔ پھر اسی دباؤ میں غلط فیصلے کرتے ہیں، بعض اوقات حرام کو بھی حلال کر بیٹھتے ہیں۔ ہمیں جو نعمتیں ملی ہیں، ان پر شکر ادا کرنے کے بجائے، لالچ اور خواہشات بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ یوں ہم اپنا ذہنی سکون کھو بیٹھتے ہیں۔
ذہنی سکون کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں۔ سونے سے پہلے اپنے آپ سے سوال کریں کہ آج کوئی بھلائی کی؟ اور کون سی غلطی کی جو آئندہ نہیں دہرانی؟ دوسروں کو خوش کرنا چھوڑیں، اپنے آپ پر توجہ دیں، اپنی ذات سے محبت کریں، اپنی دلچسپی کے کاموں میں خود کو مصروف رکھیں۔
روزانہ کچھ وقت ورزش یا سادہ یوگا کے لیے نکالیں، تاکہ جسم و ذہن تازہ اور توانا رہے۔ دوسروں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے مقاصد پر کام کریں۔ متوازن غذا کھائیں اور ان لوگوں سے فاصلہ رکھیں جو آپ کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
سب سے اہم بات: آپ خود سب سے مقدم ہیں۔ اگر دوسروں کی باتوں کی وجہ سے آپ کی صحت یا زندگی برباد ہو گئی، تو نقصان آپ کا ہوگا، نہ کہ اُن کا جن سے آپ مقابلہ کر رہے تھے، یا جو آپ کا مذاق اڑا رہے تھے۔
میں تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو کہنا چاہتی ہوں کہ اگر آپ مالی طور پر کمزور ہیں، آپ کی شادی ختم ہو چکی ہے، یا تعلیم مکمل نہیں ہوئی، یا کوئی بھی ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے معاشرہ آپ پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ تو بس! ان سب کو چھوڑ دیں۔ وضاحتیں دینا بند کریں، لوگوں کے سامنے رونا چھوڑ دیں۔ اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کریں، اپنے آپ کو ترجیح دیں، اپنے خوابوں اور مقاصد پر توجہ دیں۔
آپ خاص ہیں۔ اپنے والدین، اپنی فیملی کے لیے ایک مضبوط بازو بنیں۔ اور یاد رکھیں، ذہنی سکون کسی چیز سے نہیں جو کہ صرف اللہ پر بھروسہ اور خود سے سچی محبت سے ملتا ہے۔