"یہ پھوپھو ہمیشہ مسئلے ہی کھڑے کرتی ہیں!”
کیا ہر پھوپھو واقعی بری ہوتی ہے، یا یہ صرف ایک سماجی روایت ہے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہے؟

صدف سید
صبح کی ہلکی روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی، اور سارہ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنی امی کی آواز سن رہی تھی، جو ہمیشہ کی طرح اپنی نند کے خلاف بول رہی تھیں۔ "یہ پھوپھو ہمیشہ مسئلے کھڑے کرتی ہیں!” یہ جملہ شاید ہر دوسرے گھر میں بولا جاتا ہے، اور یہی سوچ سارہ کے ذہن میں بچپن سے بٹھا دی گئی تھی کہ پھوپھو کا مطلب ہے "مشکل”۔ وہ سوچنے لگی، آخر ایسا کیوں ہے کہ پھوپھو کا رشتہ بدنام ہو گیا ہے؟ کیا ہر پھوپھو واقعی بری ہوتی ہے، یا یہ صرف ایک سماجی روایت ہے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہے؟
یہ ایک عام کہانی ہے، جو ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنے گھروں میں دہرائی جاتی ہے۔ جیسے ہی بھائی کی شادی ہوتی ہے، ایک نئی بھابھی آتی ہے اور لاشعوری طور پر خود کو اس خاندان میں "بیگانی” محسوس کرتی ہے۔ کچھ گھروں میں تو تعلقات بہتر رہتے ہیں، لیکن کہیں کہیں وہ ایک "طاقتور حریف” کے طور پر اپنی نند کو دیکھتی ہے، جو اس گھر میں بچپن سے راج کر رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھوپھو کو یا تو لاڈ پیار کی عادی سمجھا جاتا ہے، یا اسے وہ عورت بنا دیا جاتا ہے جو "اپنے بھائی کی محبت بانٹنا نہیں چاہتی”۔ یہی وہ ابتدائی لمحہ ہوتا ہے جہاں ایک معصوم رشتہ رفتہ رفتہ بدنامی کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ صرف خاندانی سیاست ہی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں رائج میڈیا، کہانیاں اور ڈرامے بھی اس تاثر کو مزید مضبوط کر دیتے ہیں۔ اگر غور کریں تو تقریباً ہر دوسرے ڈرامے میں ایک چالاک، حسد بھری اور جھگڑالو پھوپھو ضرور دکھائی جاتی ہے، جو ہمیشہ اپنی بھابھی اور بھتیجے بھتیجیوں کے خلاف سازشیں کرتی رہتی ہے۔ جب بچے یہ دیکھتے ہیں، تو وہ لاشعوری طور پر اپنے ارد گرد کی حقیقت کو بھی انہی عینک سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر پھوپھو کبھی حقیقی محبت بھی کرے، تو بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
لیکن کیا یہ تصویر مکمل طور پر سچ ہے؟ بالکل نہیں! ہر پھوپھو بری نہیں ہوتی، اور ہر بھابھی معصوم نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار، ایک بہن کے لیے یہ دیکھنا مشکل ہوتا ہے کہ جس بھائی کے ساتھ اس نے بچپن گزارا، اب وہ کسی اور کی زندگی کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ احساسِ محرومی اگر جذبات پر غالب آجائے، تو پھوپھو واقعی تلخ ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، کچھ بھابھیاں بھی اپنی ساس نند کو خود سے کم تر سمجھنے لگتی ہیں، اور یوں تعلقات میں دراڑیں بڑھنے لگتی ہیں۔
اس کا اثر صرف بڑوں پر نہیں، بلکہ بچوں پر بھی پڑتا ہے۔ جب بھتیجے بھتیجیاں اپنی ماں کو ہمیشہ اپنی پھوپھو کے خلاف باتیں کرتے سنتے ہیں، تو وہ بچپن سے ہی ایک خاص قسم کی نفرت اپنے دل میں پال لیتے ہیں۔ بعض اوقات، یہ نفرت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر اپنی پھوپھو کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھوپھو، جو کبھی ان بچوں سے بے حد محبت کرتی تھی، تنہائی کا شکار ہو جاتی ہے۔ معاشرتی دباؤ کے باعث وہ خود کو غیر اہم محسوس کرنے لگتی ہے، اور ذہنی دباؤ میں آ جاتی ہے، جو ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
یہی نہیں، بلکہ جب بچوں کو ایک قریبی رشتے کے خلاف نفرت سکھائی جاتی ہے، تو وہ خود بھی ایسے ہی رویے اپنا لیتے ہیں۔ مستقبل میں، وہ اپنی چچی، مامی یا کسی اور رشتے کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے بنا سکتے ہیں۔ یوں، یہ زہریلا رویہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
دوسری طرف، کچھ پھوپھیاں خود بھی غلطیاں کرتی ہیں۔ بعض اوقات وہ اپنے بھائی کے بچوں کو اپنی ملکیت سمجھتی ہیں، اور ان کی پرورش میں غیر ضروری مداخلت کرتی ہیں۔ کچھ پھوپھیاں واقعی حسد کرتی ہیں، خاص طور پر اگر ان کے اپنے بچے نہ ہو یا وہ مشکل زندگی سے گزر رہی ہو۔ اس سے وہ بھتیجے بھتیجیوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کر لیتی ہیں، اور ان کے نفسیاتی مسائل کو بڑھا دیتی ہیں۔ یہ صورتِ حال بعض اوقات بچوں میں عدم تحفظ، کم اعتمادی اور ذہنی دباؤ کو جنم دیتی ہے، جس کے نتائج ان کی زندگیوں پر دیرپا اثر ڈالتے ہیں۔
اس رشتے کے ساتھ جڑا سماجی داغ بھی قابلِ غور ہے۔ اگر کوئی پھوپھو شادی شدہ نہ ہو، تو معاشرہ اسے اور زیادہ شک و شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں: "یہ تو ویسے ہی حسد میں جل رہی ہوگی، کیونکہ اس کی اپنی شادی نہیں ہوئی۔” اگر وہ خوشحال ہو، تو اس پر الزام آتا ہے کہ وہ اپنی دولت کے زعم میں بھائی کے بچوں پر حکم چلاتی ہے۔ اگر وہ کمزور ہو، تو اسے "فقیر پھوپھو” کہہ کر مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یعنی کسی بھی حال میں، پھوپھو کو "اچھا” نہیں سمجھا جاتا، اور یہی سوچ اس کے ذہنی اور جذباتی سکون کو برباد کر سکتی ہے۔
اس سماجی مسئلے کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلے، ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر رشتہ اچھا یا برا نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے رویے اسے ایسا بناتے ہیں۔ اگر بھابھی اور نند ایک دوسرے کو دشمن کے بجائے دوست سمجھیں، اور بھائی اپنی بہن کو غیر محسوس طریقے سے گھر سے الگ نہ کریں، تو یہ تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ بچوں کو ہر رشتے کی عزت کرنا سکھائیں، اور انہیں بدگمان کرنے کے بجائے یہ سمجھائیں کہ سب انسان اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔
میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈرامے اور فلمیں صرف نفرت کو ہوا دینے کے بجائے مثبت کہانیاں بھی دکھائیں، جن میں ایک محبت کرنے والی، سمجھدار پھوپھو بھی ہو۔ اس سے آہستہ آہستہ معاشرتی رویے بدل سکتے ہیں، اور اگلی نسل ایک متوازن سوچ کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہے۔
آخر میں، یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی ان مسائل پر غور کریں۔ اگر کسی کے تعلقات اپنی پھوپھو کے ساتھ خراب ہیں، تو اس پر نظرثانی کریں کہ کیا واقعی وہ اتنی بری ہیں جتنا ہمیں بچپن سے سکھایا گیا ہے؟ اگر ہم خود کسی کے بھتیجے یا بھتیجی ہیں، تو یہ سوچیں کہ کیا ہم اپنی پھوپھو سے انصاف کر رہے ہیں؟ اور اگر ہم خود کسی کے بہن بھائی ہیں، تو کیا ہم اپنے بچوں کو صحیح پیغام دے رہے ہیں؟
یہ دنیا نفرت اور رنجشوں کے لیے بہت چھوٹی ہے، اور رشتے ہماری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان رشتوں کو سمجھداری، محبت اور عزت کے ساتھ نبھائیں، تو پھوپھو کا رشتہ بھی اسی عزت و وقار کے ساتھ جینا شروع کر دے گا، جو اس کا اصل مقام ہے۔