”ضلع کرم میں اُس شام کیا ہوا؟” ایک خاتون کا آنکھوں دیکھا حال
سوشل میڈیا پر تو کچھ نظر نہیں آیا لیکن کرم سے تعلق رکھنے والی میری ایک دوست نے اس سانحے کے بارے میں بتایا جس کی وہ عینی شاہد ہے۔ اس کی کہانی اسی کی زبانی پیش کر دیتی ہوں۔
ضلع کرم کے سنگینہ، صدہ، کنج علیزئی، بگن اور علیزئی سمیت دیگر کئی علاقوں میں ہفتہ سے زائد عرصہ سے قبائل باہم برسرپیکار ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف چھوٹے بڑے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ اس سانحے کا مجھے کافی دیر سے پتہ چلا کہ تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کے باعث انٹرنیٹ کا مسئلہ پورے پاکستان میں تھا، اور ایک حد تک اب بھی ہے اس لیے مجھے سوشل میڈیا پر اس کے متعلق کچھ نظر نہیں آیا۔ کل کرم سے تعلق رکھنے والی میری ایک دوست نے مجھے اس سانحے کے بارے میں بتایا جس کی وہ عینی شاہد ہے۔ اس نے جو کہا اسی کی زبانی پیش کر دیتی ہوں۔
"میں شادی شدہ ہوں، اور اپنے سسرال میں ہوں جو والدہ کے گھر سے ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ شام کا اندھیرا چھا رہا تھا جب میری بہن کا فون آیا؛ کانپتی آواز میں بولی ”میرے موبائل پر پیکج کروا دو۔” میں نے حیرانی سے پوچھا کہ گھر میں سب ٹھیک ہے؟ تو اس نے بتایا کہ ان کا گاؤں تباہ ہو گیا؛ جنگ شروع ہو چکی، گولیوں کی بارش ہو رہی ہے: "گاؤں کو آگ لگ گئی ہے؛ گھر کے مردوں کو کال کر کے بچوں کو گھر بلوا لو۔ ہمارے لئے بھی گاڑی کا بندوبست کروا لو تاکہ ہم کسی محفوظ مقام کی طرف نکل سکیں۔
میری بہن کو کیا معلوم کہ وہ گاڑی کے بندوست کا وقت نہیں تھا۔ میری بھابی حاملہ ہے۔ یہ فیصلہ ہوا ھا کہ ہم گاؤں میں ہی رہیں گے لیکن بھابھی کو احتیاطاً کسی اور جگہ لے جائیں گے تاکہ کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ ہمیں خبر نہیں تھی کہ پورا گاؤں سوگوار ہے۔ اور ہر ایک کو اپنی پڑی ہے اور اِس کوشش میں ہے کہ صرف بچوں، بوڑھوں، عورتوں کو بحفاظت کسی محفوظ مقام پر منتقل کروا سکے۔ گھربار، مویشی، گھریلو سامان، پیسہ کسی نے کچھ بھی ساتھ نہیں لیا۔ ہمارے گاؤں کی خواتین عموماً برقعہ پہنتی ہیں لیکن اس دن عورتیں صرف نقاب پہن کر گھر سے باہر نکلیں۔ ہر کسی کو صرف یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ خدانخواستہ ان کی عزت پر آنچ نہ آئے۔
یہ بھی پڑھیں: کرم میں لاشیں گرنے کا سلسلہ جاری، وزیراعظم نے نوٹس لے لیا
جب ہم گھر سے نکلے تو رات کے 11 بج رہے تھے؛ ساتھ میں بچے اور حاملہ بھابی بھی تھی، پہاڑوں میں پیدل کافی فاصلہ طے کیا تھا ہم نے کہ اچانک بھابھی کو چھوٹی بیٹی کا خیال آیا، دیکھا تو وہ ساتھ نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر وہ رونے لگی اور میری بہن سے کہا کہ واپس گاؤں چلتے ہیں، میری بچی گھر پر جھولے میں رہ گئی ہے۔ میری بہن نے سمجھانے کی کوشش کی کہ گاؤں واپس کیسے جا سکتے ہیں۔ مسلسل گولہ باری ہو رہی ہے، گاؤں کو آگ لگ گئی ہے۔ بھابھی وہیں بیٹھ کر رونے لگی اور کہا: "مجھے ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے، میں نہیں جا رہی۔” میری بہن بار بار گاؤں کے لوگوں کو فون کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی، آخرکار معلوم ہوا کہ بچی محفوظ ہے اور محلے والے اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
میری خالہ کی بیٹی کا آپریشن ہوا ہے، ٹانکے نہیں کھلے تھے اور ہمارے میں گھر تھی۔ اس پیدل لمبے سفر کی وجہ "سے وہ ٹانکے کھل گئے، ہم، اور میری وہ کزن، جس تکلیف سے گزرے وہ خدا ہی جانتا ہے، اور ہم جانتے ہیں۔
اپنی دوست کی یہ کتھا سن کر تو میں بالکل ہکا بکا رہ گئی، میرے پاس اسے تسلی دینے کیلئے الفاظ نہیں کجا کہ مزید کچھ دریافت کرت۔ دوست کو تو جیسے تیسے رخصت کر دیا، پھر سارا دن اس بلاگ پر گزارا؛ لکھنے بیٹھ جاتی تو کبھی ذھن ماؤف، کبھی ہاتھ شل ہونے لگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے یہ ادنی سی کوشش اِس لئے کی ہے کہ متحارب قبائل کے عمائدین، حکمران، یا کوئی بھی بااثر انسان اس کشیدگی کے خاتمے کیلئے کچھ کرے نا کرے ہم سے جو ہو سکا، بشمکل تمام سہی، کر تو دیا۔ میری سب سے گزارش ہے کہ کرم کے بے گھر بھائی بہنوں کی جتنی ہو سکے مدد کریں۔ مشکل وقت کسی پر، کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔