اے آئی کے ذریعے خواتین کے خلاف جعلی نامناسب مواد کی تخلیق ایک سنگین مسئلہ
رانی عندلیب
حالیہ سالوں میں، ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی نے جہاں زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتری لائی ہے، وہاں کچھ منفی پہلوؤں بھی سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے ذریعے خواتین کے خلاف جعلی نامناسب مواد کی تخلیق ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
ڈیپ فیک ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو کسی فرد کے چہرے یا آواز کو دوسرے شخص سے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا استعمال اس وقت تک محدود تھا جب تک کہ اس کی رسائی عام لوگوں تک نہیں تھی۔ اب مختلف ایپس اور ویب سائٹس اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جعلی تصاویر اور ویڈیوز بنانے میں مشغول ہیں، خاص طور پر خواتین کی تصاویروں کو ہدف بنایا جاتا ہیں۔
حال ہی میں کی گئی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دو کروڑ چالیس لاکھ افراد نے ڈیپ فیک ویب سائٹس کا استعمال کیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر ان ایپس کے لنکس میں 2400 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، اور یہ مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے زیادہ تر متاثر خواتین ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب متاثرہ خواتین کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان کی تصاویر یا ویڈیوز کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اگر انہیں علم ہوتا ہے تو قانونی کارروائی کرنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ سب کچھ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ ہراساں کیا جا رہا ہے۔
آن لائن ہراسانی کے اثرات نہ صرف نفسیاتی ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی اور قانونی مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ متاثرہ خواتین کو شرمندگی، خوف، اور بے اعتمادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ خود کو سماجی طور پر الگ تھلگ محسوس کرتی ہیں، اور ایسی خواتین کی روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
جبکہ اے آئی ٹیکنالوجی کی ترقی نے متعدد مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس کے خطرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً، گوگل، یوٹیوب، اور میٹا جیسے پلیٹ فارمز نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے تاکہ اے آئی سے تیار کردہ مواد کو لیبل کرنے کی ہدایت دی جا سکے، مگر اس کے باوجود اس مواد کا اثر کم نہیں ہوا.
بہت سے ترقیاتی ممالک نے اے آئی سے تیار کردہ جعلی مواد کے خطرات کو دور کرنے کے لیے متعدد اقدامات کئے ہیں، مگر ان کے نتائج ابھی تک مکمل طور پر قابل اطمینان نہیں ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور ان کی حفاظت کے لئے مزید سخت قوانین کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، خواتین کو اس ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح جعلی مواد بنایا جا سکتا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آن لائن سیکیورٹی کے بارے میں تعلیم بھی ضروری ہے تاکہ وہ بہتر طور پر محفوظ رہ سکیں۔ تاکہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے محتاط رہیں۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں نہ صرف اپنی پالیسیوں کو مزید مضبوط بنانا چاہیئے بلکہ موثر طریقے سے جعلی مواد کی شناخت کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرنا چاہیئے۔
قانون سازوں کو اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے مزید سخت قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ جعلی مواد تیار کرنے والوں کے خلاف سخت سزائیں عائد کرنی چاہیئے تاکہ یہ ایک بازاری عمل نہ بن سکے۔
یہ کہنا کہ اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کے خلاف جعلی مواد کی تخلیق ایک سنگین مسئلہ ہے۔ غلط نہیں ہوگا۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کا نہیں، بلکہ معاشرتی رویے کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمیں مل کر اس مسئلے کا مقابلہ کرنا ہوگا، تاکہ ایک محفوظ اور انصاف پسند آن لائن ماحول قائم کیا جا سکے۔