بلاگزخیبر پختونخواعوام کی آواز

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے………

نورالحق

اگر دوبارہ جوانی چاہتے ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔

آئیں تجربہ رکھنے والے ، تاریخ جاننے والے اور علم سیاحت کے اصولوں کے مطابق آج چند باتیں اپنے تجربے سمیت آپ کے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہوں  شاید کسی کو کچھ فائدہ ہو جائے۔

سیاحت
نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے۔۔ (فرحت ندیم ہمایوں)

سیاحت تفریحی، فرحت بخشانہ، صحت افزائی، اطمینان بخشی یا قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے مقاصد کے لیے سفر ہے۔ سن دو ہزار کے بعد سیاحت ایک مقبول عالمی تفریحی سرگرمی بن چکی ہے۔ ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن یہ پیشنگوئی کرتا ہے کہ ایک سے دوسرے مُلک سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد 1997ء میں 631 ملین سے سنہ 2020ء تک 1 اعشاریہ 6 بلین تک بڑھ جائے گی۔ جس میں تاحال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سیاحت نہ صرف سیر و تفریح اور صحت افزائی کے لیے مفید ہے بلکہ سیاحت سے مقامی آبادی اور اس ملک کے اقتصاد کو تقویت ملتی ہے۔ لوگوں کو کام کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ سیاحت سے مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔ سیاحت کے مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والا سیاحت، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کو دیکھنے جاتے ہیں، تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔

"سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے”۔ (حیدر علی آتش)

یہ مشغلہ آپ کو دوبارہ جوان بنا دیتا ہے۔ گلوبل کوئلیشن آن ایجنگ نامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق دباؤ اور تناؤ بڑھاپے کے عمل کو تیز کر دیتا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق ذہنی دباؤ روزانہ جسم میں کارٹیسول ہارمون کا ایک ٹیکا لگنے کے مترادف ہے جو مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے اور گردوں کی خرابی، سر درد اور آنتوں میں سوزش جیسی بیماریوں کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔خوش قسمتی سے تفریحی سفر کے مثبت اثرات کم ہی وقت میں نظر آنے لگتے ہیں۔سنہ 2012 میں 500 افراد سے لئے گئے ایکسپیڈیا کے سروے سے پتہ چلا کہ تفریحی مقام پر پہنچ کر لوگوں کو پُرسکون محسوس کرنے میں صرف ایک دو دن درکار ہوتے ہیں۔ سنہ 2002 میں برطانیہ کی سرے یونیورسٹی کے محققین نے تجویز دی کہ صرف تفریحی سفر کی تیاری کر کے اور اس کے بارے میں سوچ کر بھی سفر کرنے والوں میں مثبت احساسات جاگ اٹھتے ہیں اور وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔

"نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں
سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے "۔۔ (جمال احسانی)

سفر کرنے سے ہمیں نئے کھانوں کو کھانے، نئے ماحول کو دیکھنے اور مختلف زبانیں سننے اور بولنے جیسی دماغ کی نشوونما کرنے والی سرگرمیاں سرانجام دینے کا موقع ملتا ہے۔ گلوبل کوئلیشن آن ایجنگ کی رپورٹ کے مطابق مقامی ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول ہونا اور دوسری جگہوں کے بارے میں سیکھنا نہ صرف ہمیں ذہین بناتا ہے بلکہ ایلزائمر جیسے اعصابی امراض کی پہنچ سے بھی دور رکھتا ہے۔

پِٹسبرگ یونیورسٹی کے میڈیسن سکول کے ڈاکٹر پال ڈی نسبام کے مطابق ‘سفر کرنا ایک اچھی دوا کی طرح ہے۔ ان کا کہنا ہے ‘سفر کرنے سے دماغ میں مختلف اور نئے تجربات اور ماحول سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رویہ عمر بھر کے لیے اعصاب کی صحت اور لچک کو بڑھاتا ہے۔

یہ آپ کو ذاتی فروغ کے مواقع فراہم کرسکتا ہے، تحقیق کے مطابق اگر آپ جوان ہیں اور کچھ عرصے کے لئے بیرون ملک منتقل ہو سکتے ہیں تو یہ تجربہ آپ کی ذاتی فروغ کو بہت فائدہ پہنچائے گا۔ جرمنی کی فریڈریخ شِلر یونیورسٹی کے ڈاکٹر فرانز نیئر اور ڈاکٹر جولیا زِمرمان نے ایک سمیسٹر یا اس سے زائد وقت بیرون ملک گزارنے والے 3000 جرمن طالب علموں کے ذاتی فروغ کا موازنہ ملک میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں سے کیا۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے والے طالب علم ملک میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں سے زیادہ ملنسار ہیں۔ وطن واپس لوٹنے کے بعد طالب علموں نے جذبات میں استحکام اور نئے تجربات کرنے کے لیے زیادہ رضامندی دکھائی۔

محققین کا کہنا ہے ‘لڑکپن سے جوانی میں داخل ہونے کے دوران زیادہ تر افراد باضمیر، سمجھدار اور جذباتی طور پر مستحکم ہو جاتے ہیں۔ خواہ آپ عمر کے جس بھی حصے میں ہوں اور جیسے بھی سفر کرنا پسند کرتے ہوں، کچھ وقت نکال کر تفریح کرنے کے فوائد سے آپ بھرپور لطف اٹھا سکتے ہیں۔

اب ہم اپنے ملک خدا داد کے طرف آتے ہیں

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو اللہ تعالی نے متنوع جغرافیہ اور انواع و اقسام کی آب و ہوا دی ہے۔ پاکستان میں مختلف لوگ، مختلف زبانیں اور علاقے ہیں جو پاکستان کو بہت سے رنگوں کا گھر بنا دیتے ہیں۔ پاکستان میں ریگستان، سرسبز و شاداب علاقے، میدان، پہاڑ، جنگلات، سرد اور گرم علاقے، خوبصورت جھیلیں،جزائر اور بہت کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دس سال پہلے ایک سروے کے مطابق پاکستان نے اپنی طرف ایک ملین سیاحوں کو مائل کیا۔

امن و امان کے مسئلے کے وجہ سے پاکستان کی سیاحت بہت متاثر ہوئی لیکن اب حالات بڑی حد تک معمول پر آچکے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔ پاکستان میں سیاحت کو سب سے زیادہ فروغ 70ء کی دہائی میں ملا جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور دیگر صنعتوں کی طرح سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی بیرونی ممالک میں سے لاکھوں سیاح پاکستان آتے تھے۔ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں درہ خیبر، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی جیسے علاقے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر خوبصورت علاقے بھی دنیا بھر میں متعارف ہوئے اور سیاحت تیزی سے بڑھی۔ کشمیر جو پاکستان کے شمالی حصے میں واقع ہے جو کہ پاکستان کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے۔

آزاد کشمیر زیادہ تر سرسبز وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے اور قدرت نے خطے کو ہر قسم کے نظارے بخشے ہیں۔ کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور سیر و تفریح کے لیے لوگ بڑی تعداد میں آزاد کشمیر کا رُخ کرتے ہیں۔ اسی خوبصورت مناظر کی وجہ سے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت ہے۔

گزشتہ اتوار 14 جولائی کو اپنے ساتھیوں یورا لوجسٹ محمد شیعب، مفتی عبیداللہ، مولانا امین اللہ اور برادر لطف اللہ ذاہد (ایم فل کیمسٹری، قائد اعظم یونیورسٹی) کے معیت میں سہ پہر چار بجے براستہ چکدرہ اسلام آباد سفر تفریح کا آغاز ہوا۔ ضلع دیر کے گاؤں معیار میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کی اور نماز عصر کے بعد روانہ ہوئے، چکدرہ سوات کے سنگم پر واقع ہوٹل میں نماز مغرب پڑھنے کے بعد چائے نوش کرکے سفر شروع ہوا۔

یہاں سے ہمارے سفر کا آگے کی طرف بڑھنے لگا رات کے ڈھائی بجے کے قریب ہم نے نزد کوہالہ ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا۔ صبح نو بجے دوبارہ آغاز سفر ہوا، مظفرآباد شہر سے پہلے دو لائی کے مقام پر چئیر لفٹ کے زریعے آبشار ہوٹل میں جاکر ہم نے ناشتہ کیا یہ مقام آبشار کی وجہ سے کافی مشہور ہے سیاح یہاں آکر چٹانوں سے گرتا ہوا تیز و خوبصورت آبشار کے نیچے لطف اندوز ہوکر زندگی کی خوشیوں میں اضافے کا سبب بناتے ہیں۔

یہاں سے ہم آگے بڑھنے لگے مظفرآباد شہر سے گزرتے ہوئے ہم نے دانی آبشار کے مقام پر ٹہرنا طے کیا اس کی وجہ یہ بنی کہ جو کمپنیاں لوگوں کو سیاحت پر بعوض بھاری رقم لے کر جاتے ہیں وہ اس مقام کو ایک بڑے سیاحی مقام کے طور پر دیکھاتے اور بتاتے ہیں لیکن یہاں ایک چھوٹا سا آبشار ہے جس کا کوئی خاص مقام نہیں ہے نام بڑا ہے صرف یہاں پر مدت قلیل گزارنے کے بعد آٹھ مقام کے ایل او سی پر روک کر ملک خدا داد اور ہندوستان کے ایک بارڈر کا نظارہ کیا دونوں ملکوں کے جوانوں نے اپنے ملکی جھنڈوں سے اپنے مقامات کو مزین کیا ہوا تھا اور سیاحوں کو متوجہ کرنے میں مگن تھے۔

یہاں سے ہمارے سفر کا ایک اور مرحلہ شروع ہوا شاردہ کے مقام پر رات گزارنے کے بعد صبح مقامی شخص شان گیلانی کے معیت اور ان کے جیپ میں کیل، تاؤ بٹ ، اڑنگ کیل کے جانب عازم سفر ہوئے۔ ہم نے اس سفر میں جہاں جہاں کا سیرو سیاحت کیا ان مقامات کے بارے میں کچھ معلومات آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، یاد رہیں یہ معلومات اکثر نیٹ سے حاصل کی گئی ہے جبکہ بعض معلومات مشاہدہ اور ساتھیوں سے حاصل کی ہیں۔

تجاوئز و تجربات

جیسا کہ مشہور ہے کہ وادی کشمیر خوبصورت و ٹھنڈا ہے، یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ واقعی یہ علاقے انتہائی سر سبز و شاداب ہے لیکن شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان ، ناران کاغان، کمراٹ جیسے ٹھنڈے نہیں ہے یہاں موسم نارمل ہے زیادہ گرم بھی نہیں ہے لیکن امیدوں کے مطابق ٹھنڈا بھی نہیں ہے۔

یہاں کے لوگ ہر کسی سیاح و دیگر بندوں کو ایک گاہک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جبکہ یہاں ہمارا مشاہدہ ہوا کہ یہاں پر بعض لوگ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ سیاح و ذمہ داران علاقہ اس فعل کے روک تھام کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔ جبکہ یہاں بھی بعض لوگ اپنے حجروں کو کرایوں پر دینے کی دعوتیں دیتے ہیں۔ اور عام ہوٹل بھی دیگر سیاحتی مقامات کے بر عکس مہنگے ہیں البتہ کھانوں کی قیمت اتنی زیادہ نہیں ہے۔

راستے بتانے اور راہنمائی کرنے میں یہاں کے لوگ بخل سے کام لیتے ہیں۔ اگر کوئی ساتھی یہاں جانا چاہتے ہیں تو رہنمائی لینا بہت ضروری ہے۔ ذاتی گاڑی رکھنے والے حضرات کو یہ مشورہ دینا بہتر ہوگا کہ شاردہ سے آگے اپنی سواری پر نہ جائے کیونکہ اکثرراستہ انتہائی خراب ہے اور ایک طرف پہاڑ تو دوسری طرف دریا جبکہ روڈ تنگ ہونے کی وجہ سے کئی مقامات پر ٹریفک جام رہتا ہے یہاں کے مقامی گاڑیاں چونکہ مضبوط اور ڈرائیورمقامی ہونے کی وجہ سے ان پریشانیوں سے بچے رہتے ہیں۔

محکمہ سیاحت و انتظامیہ کے لئے ضروری ہے کہ ان علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر ، راستوں کے پختگی ، گندگی کو ٹھکانے لگانے کا انتظام، ٹرانسپورٹ اور ہوٹلز کی چھان بین سمیت دیگر ضروریات زندگی پر خصوصی توجہ دے۔

جبکہ عوام اور سیاح لوگوں کو صفائی کا خاص خیال رکھنا، گندگی نہ پھیلانا، استعمال شدہ اشیاء اور دیگر گند کو مقررہ ڈسٹ بین میں یا ٹھکانے لگانا، انتظامیہ اور وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ تعاون کرنا، ان کے رسم و رواج اور ان کے املاک کا خیال رکھنا، درختوں کی کٹائی سے اجتناب کرنا، بچوں و دیگر بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ان کو کچھ نہ دینا اور ٹریفک میں روانگی کے برقرار رکھنے میں کردار ادا کرنا،اپنی سنجیدہ پن کا اظہار کرنا انتہائی ضروری ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ سیاحت کرنا اور سیاحت کے لئے وقت نکالنا آپ کے اصول زندگی میں ضرور ہونا چاہئے۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق زندگی کے چند ایام و لمحات میں ضرور سیاحت کریں لیکن سیاحت اگر ساتھیوں کے ساتھ کرنا ہو تو انتخاب دوست میں تفکر و تلاش بیسار سے کام لے۔ مزاج و طبعت خوش آئند ساتھیوں کا انتخاب کریں تاکہ سیاحت کے مزے آپ کے دوبالا ہوجائے۔

آخر میں تمام شرکاء سفر کے خیر و عافیت ، خوشی و آسائش سے مزین حیات، فتن و شرور سے محفوظ زندگی اور لمحاتِ مبشرہ کےلئے دعاگوں ہوں۔

"گرم ہے ہنگامۂ شام و سحر میرے لیے
رات دن گردش میں ہیں شمس و قمر میرے لیے
میں ہوں وحشی آہ کس صحرائے آفت خیز کا
ہے گل ویرانہ بھی بیگانہ تر میرے لیے
اس مقام عشق میں ہوں مرحبا اے بے خودی
ذرہ ذرہ ہے جہاں گرمِ سفر میرے لیے”۔۔۔۔۔ (جگر مراد آبادی)

Show More
Back to top button