محرم الحرام اور میرا بچپن
رانی عندلیب
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ چند دن پہلےمحرم کے حوالے سے ایک خبر پڑھ رہی تھی کہ پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے حکم نامہ جاری کیا ہے کہ پشاور میں محرم الحرام کے پیش نظر دفع 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ جس کے تحت گاڑیوں اور دکانوں کے سیاہ شیشوں، ہوائی فائرنگ اور اسلحہ کی نمائش پر پابندی ہوگی۔ اس کے علاوہ غیر مجاز افراد کی طرف سے گاڑیوں پر پولیس لائٹس کے استعمال غیر رجسٹرڈ گاڑیوں اور خودساختہ نمبر پلیٹس والی گاڑیوں اور موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد ہوگی۔
ضلع انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144، 25 جون سے 25 جولائی تک ایک ماہ کے لئے نافذ العمل ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں دفعہ 188 پی پی سی کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
یہ سوچتے ہی مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔ ان تمام باتوں سے بے خبر مجھے محرم کے آنے کا انتظار رہتا تھا۔ جس کی عقیدت اور احترام میں ہمارے گھر دس دن ٹی وی نہیں لگتا تھا۔ گانا لگانا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ گھر گھر نیاز پکائی جاتی کھیر بانٹی جاتی اور سبیل لگائی جاتی تھی۔
اس مہینے کی 9 یا 10 تاریخ کو میری امی ہمارے لیے مٹی کے برتن خریدتی تھی۔ امی پودوں کےلیے گملے لیتی، اس میں مختلف پودے اگاتی تاکہ گھر پیارا لگے۔ گملوں کو ہم اپنے چھوٹے سے باغیچے میں رنگ دے کر رکھتے تھے۔
محرم جیسے ہی شروع ہوتا اس مہینے کے لیے بہت سارے انتظامات کروائے جاتے تھے اور میرے بچپن کی جتنی بھی سہیلیاں تھی ہم سب مٹی کے برتن خریدتے اور محرم کے آنے سے پہلے کمہار گیلی مٹی کو اپنے ہاتھوں کی جنبش سے انتہائی نفاست کے ساتھ خوبصورت برتنوں کی شکل میں ڈھال لیتے جس پر خوبصورت ڈیزاین بنائے جاتے تھے اور ہم پھولوں والے برتن لینا پسند کرتے تھے۔
سارے بچے گھر گھر کھیل کھیلتے تھے۔ کھیلنے کے دوران ہمارے برتن ٹوٹ جاتے تو پھر سارا سال محرم کا انتظار کرتے کیونکہ وہ برتن محرم کے علاوہ نہیں ملتے تھے۔
میری امی محرم کے مہینے میں مٹی والا تندور لیتی۔ شام کو محلے کی تمام خواتین اکھٹی ہوتی گپ شپ بھی لگاتی ۔ تندور پر امی اور محلے کی تمام خواتین روٹیاں پکاتی تھی۔ جب بارش یا کسی اور وجہ سے تندور سائیڈ سے خراب ہوتا تو اس کو گاڑھا مٹی سے دوبارہ مرمت کیا جاتا۔
لیکن آج کل اسٹیل اور پلاسٹک کے برتنوں کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اس ہنر کو معدوم کر دیا ہے۔ دوسرا آج کل بچے موبائل کا استعمال کرتے ہیں اس پر وڈیو گیم ،ٹک ٹاک انسٹاگرام وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو اگر دیکھا جائے تو موبائل نے بچوں سے اس کی معصومیت ہی چھین لی ہیں۔
محرم الحرام میں نذر ونیاز تقسیم کرنے کیلئے مٹی کے برتنوں کا روایتی استعمال عام تھا۔ جب ہی تو مانگ بڑھتے ہی ایک طرف کچے برتنوں کی تیاری کا عمل دن رات جاری ہوتا تھا۔ تو دوسری جانب مارکیٹ میں اسکی فروخت بھی ہاتھوں ہاتھ ہو رہی ہوتی تھی ۔
محرم الحرام عقیدت و احترام والا مہینہ ہے جس میں حضرت امام حسین ؓ نے عظیم قربانی دے کر پرچم اسلام کو رہتی دنیا تک سربلند کر دیا ۔ اسی لئے عشرہ محرم کے دوران فرزندان اسلام شہدائے کربلا کی یاد میں نذر و نیاز کا سلسلہ جاری رکھتے تھے اور مٹی کے مخصوص برتنوں میں نیاز تقسیم کی جاتی تھی۔ محرم کی عقیدت کو دیکھتے ہی 10 دن ہمارے گھر ٹی وی نہیں لگتا تھا۔ گھر گھر نیاز پکائی جاتی تھی۔ کھیر اور چاول گھروں میں جبکہ شربت بچوں میں بانٹے جاتے تھے۔
لیکن اب سب کچھ بدل چکا ہےنہ وہ بچپنا ہے نہ وہ بچپن کا زمانہ۔ ایسا لگتا ہے کہ جدید دورکے تقاضوں کے ساتھ میرا بچپن بھی کہی کھو گیا ہے اور وہ تمام چیزیں آہستہ آہستہ ختم ہو گئی ہے۔