بلاگزخیبر پختونخواعوام کی آواز

ایک وقت کی روٹی کے لئے جان کی بازی لگانے والے کان کنوں کی حالت زار، آخر انکا پرسان حال کون؟

نازیہ

جب بھی میں کوئلے کو دیکھتی ہوں تو مجھے کان کن مزدوروں کے تھکے ہوۓ افسردہ اور مایوس چہرے یاد آتے ہیں۔ یہ کان کن جن کانوں میں کام کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے کسی قبرستان سے کم نہیں کیونکہ یہ کان کن پہاڑوں کو چیر کر انتہائی گہرائی میں جا کر کوئلا نکالنے کے ساتھ ساتھ خود کوئلہ بن جاتے ہیں۔ دل تو خون کے آنسو تب روتا ہے جب اتنی محنت کرنے کے باوجود بھی ان کی ضروریاتِ زندگی پوری نہیں ہوتی ہے، بڑی ہی مشکل سے زندگی گزارنے کے اسباب تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے خیبر پختونخواہ میں دنیا کا بہترین کوئلہ شانگلہ، اورکزئی، کرم، درہ آدم خیل، مہمند، مردان، ڈی ائی خان، چترال، مانسہرہ، کوہستان اور بونیر وغیرہ میں موجود ہے اور اسی کوئلے سے اچھا خاصہ زر مبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اس کوئلے سے جہاں ایک طرف اتنی زیادہ آمدنی آتی ہے تو کیا اس میں سے ان مزدوروں کو تنخواہ یا اجرت دیتے وقت انصاف کیا جاتا ہے؟ نہیں بلکل بھی نہیں۔ اگر انصاف کیا جاتا تو ان کان کنوں کی اتنی حالت زار نا ہوتی۔

جھلسا دینے والی گرمی ہو یا خون جما دینے والی سردی ہو کوئلے کی ان کانوں میں یہ  مزدور 18  18 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ان مزدوروں کے پاس جدید آلات بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان کو حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ صدیاں گزر گئی لیکن ان کانوں میں کوئی جدت نہیں آئی۔ اور نہ ہی ان کان کنوں کی کوئی تربیت کی جاتی ہے۔ باہر کے ممالک میں کان کنوں کو ہر قسم کی سہولیات موجود ہوتی ہے اور ان کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ اور ساتھ میں ہر طرح کی سہولیات موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے کان کنوں کو جانی نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوتا ہے۔

ان کانوں سے کوئلہ نکالنے کے لیے ان کان کنوں کو ایک ہزار سے لے کر پانچ یا چھ ہزار فٹ کی گہرائی تک جانا ہوتا ہے۔ ان کانوں میں تقریبا سات سے اٹھ قسم کی زہریلی اور جان لیوا گیسیں موجود ہوتی ہے  جو کہ انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ اکثر ان کانوں سے کوئلہ نکالنے کے لیے بم دھماکے بھی کئے جاتے ہیں جو کہ زیادہ خطرناک ہے۔ انہی بم دھماکوں کی وجہ سے کئی کان کنو کی اموات بھی ہو چکی ہے۔ اگر میں ان کانوں کو کوئلے کے کان نہیں بلکہ موت کے کان کہوں تو غلط نہیں ہوگا۔

ان کان کنوں کی صحت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ پھر علاج کے لئے لاکھوں روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اکثر کان کنوں کو پھیپڑے، ہیپاٹائٹس، ٹی بی، دمہ، سینے اور سانس کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہے۔

ایک دفعہ ٹی وی پر ایک کان کن کا انٹرویو دیکھ رہی تھی تو صحافی نے اس سے پوچھا کہ اتنے خطرات کے باوجود آپ یہ کام کیوں کرتے ہیں تو اس نے جواب میں کہا جب ہم یہ کام نہیں کرینگے تو کھائیں گے پھر کیا، مجھے تو محض اپنا پیٹ بھرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے پورے خاندان کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے ان کی کفالت کا زمہ میرے سر پر ہے۔ یہ سننے کے بعد صحافی بھی خاموش ہوا۔

کوئلے کے یہ کان پہاڑوں میں ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں زیادہ تر رہنے والے لوگ غریب اور ان پڑھ ہوتے ہیں اور زیادہ باشعور نہیں ہوتے ہے۔ ان کان کنو کے مسائل اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ ان کا کوئی لیبر یونین بھی نہیں ہوتا ہے اور اکثر ان کان کنوں کے مالکان با اثر ہوتے ہیں جو ان کو لیبر یونین بنانے یا ان میں شمولیت کی اجازت بھی نہیں دیتے ہیں۔

ان مزدوروں کے لیۓ تو لیبر ڈیپارٹمنٹ موجود ہے جو ان کے حقوق کے لئے بنایا گیا ہے مگر بد قسمتی سے ان کان کنوں کی حالت زار ویسے کی ویسی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور پرسانِ حال  نہیں جو ان کان کنوں کے لئے آواز اٹھائے اور یا وہ جو کان کنی کرتے وقت اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ان کے لواحقین کے سروں پر ہاتھ رکھ سکے، یا وہ کان کن جو معزور ہو جاتے ہیں ان کے لیے روٹی روزی کا بندوبست کرے یا ان کے بچوں کو تعلیم دلوا سکے۔ ان کان کنوں کی نہ تو کوئی سوشل سکیورٹی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اولڈ ایج بینیفٹ۔

غربت کے ستاۓ اور ضروریات زندگی کو خون پسینہ ایک کر کے پورا کرتے کرتے اپنی زندگی کے ارمانوں کو پورا کئے بغیر گزار دیتے ہے اور آخر میں سواۓ خالی ہاتھ اور افسوس کے ان کے ہاں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔

اگر ان کانوں میں آگ لگ جائے تو فائر بریگیڈ اول تو پہنچ ہی نہیں سکتی اگر پہنچے بھی تو اس میں زیادہ وقت لگے گا۔ اگر کوئی دوسری ایمرجنسی ہوتی ہے تو نہ ایمبولنس کی سہولت موجود ہے نہ ہی کوئی اور سہولت۔ اگر کسی مریض کی حالت خراب ہوتی ہے تو راستہ خراب ہونے کی وجہ سے اس کو ہسپتال پہنچاتے وقت مریض دم توڑ چکا ہوتا ہے۔

آخر میں بس اتنا کہونگی کہ مزدور طبقہ تو پاکستان میں زیادہ ہے مگر ان کان کنوں کو اور مزدور طبقے کی نسبت بہت زیادہ مشکلات لاحق ہے۔ مزدور بھی انسان ہے ان کی بھی خواہشات ہوتی ہیں وہ بھی آرام، سکون اور عزت سے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

حکومت کے ساتھ ساتھ این جی اوز کو بھی چاہیۓ کہ ان کان کنوں کی مشکلات کو حل کرے۔ ان کے لیۓ آسانیاں پیدا کرے۔ ان کے لیے جدید قسم کی مشینری کا بندوبست کرے۔ اور باقاعدہ ان کو محفوظ کان کنی کی ٹریننگ دی جائے۔ حکومت کو چاہیۓ کہ اگر خدانخواستہ ان کی صحت کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ان کے علاج کا خرچ اٹھائے۔ اس طرح کرنے سے نہ تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ ان کان کنوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔         

Show More
Back to top button