گرمی میں جلد کی حفاظت کیسے کی جائے؟
رانی عندلیب
گرمی کی آمد کے ساتھ ہی مختلف جلدی امراض جیسے جلن ،سوزش، سکن کا سرخ ہونا، چھائیاں داغ دھبے، جن سے تمام لوگ پریشان ہوتے ہیں۔
پشاور کی سمیرا کا کہنا ہے کہ گرمی کا موسم ان کو اس لیے برا لگتا ہے کہ گرمی میں ان کا پورا چہرہ چھائیوں سے بھر جاتا ہے۔ جس سے سمیرا احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے اور ان کا 6 سالہ بیٹا گرمی کی وجہ سے بہت زیادہ نہاتا ہے اس لیے ان کا پورا بدن گرمی دانوں سے بھر جاتا ہے۔
جبکہ نادیہ نے بتایا کہ گرمی میں ان کو بھی سکن الرجی ہو جاتی ہے۔ وہ گھریلو ٹوٹکے کرتی ہے کیونکہ کوئی دوائی ان پر اثر نہیں کرتی۔ موسم تبدیل ہونے کے ساتھ اس کی الرجی خود ٹھیک ہو جاتی ہے۔
اس حوالے سے ماہر جلدی امراض محمد زبیر بھٹی نے ٹی این این کو بتایا کہ گرمی کے موسم میں جلد کی بیماریاں عام ہو جاتی ہے کیونکہ گرمی میں دھوپ کی شعا عیں بہت تیز ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ براہ راست جلد پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ویسے بھی موسم چاہے جو بھی ہو گرمی ہو یا سردی، موسم کی تبدیلی کے اثرات انسانی جلد پر پڑتے ہیں۔ شدید گرمی کے موسم میں ہر دوسری خاتون کو رنگت، چہرے کے داغ دھبوں اور کیل مہاسے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر خواتین گرمیوں میں اپنی سکن کو سورج کی تیز شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے گھر میں قید ہو جاتی ہے۔
جو کہ مسئلے کا حل نہیں خصوصاً پیشہ ورانہ خواتین کا گھر سے باہر نہ نکلنا ممکن نہیں جس کے باعث انہیں جلد سے متعلق بہت سی شکایات رہتی ہیں۔ چونکہ مرد کی نسبت خواتین کی جلد زیادہ حساس ہوتی ہے۔ اس لیے خواتین کو گرمی میں سن بلاک لگانا چاہیے۔
چھوٹے بچوں کی جلد زیادہ حساس ہوتی ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ بچوں کو زیادہ نہ نہانے دیا جائے اور انھیں براہ راست دھوپ کے سامنےبھی نہ لایا جائے بلکہ انھیں باریک کپڑے پہنائیں اور سائے میں رکھیں تاکہ سورج کی روشنی سے محفوظ رہے۔
گرمی کے موسم میں زیادہ نہانے سے جلد بھی خراب ہوتی ہے اس لیے سب سے پہلے، اپنی جلد کو زیادہ دھونے سے گریز کریں۔ دن بھر اضافی دھونے سے آپ کی جلد خشک ہو سکتی ہے اور جلن پیدا ہو سکتی ہے جبکہ زیادہ بال دھونے سے خراب اور رف ہو جاتے ہیں، اس لیے جسم میں زنک کی مقدار بڑھا کرجلد اور بالوں کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ چھ ماہ سے کم عمر کے بچوں کو سن سکرین نہیں لگانا چاہیے۔ زبیر بھٹی نے مزید بتایا کہ” خواتین زیادہ تر ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اپنی جلد کی حفاظت کے لیے مختلف کریمز کا استعمال یا علاج کرتی ہے لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لیے اپنی جلد کی حفاظت کے لیے متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔”
دوسرا یہ کہ موسم گرما میں گرمی کی شدت کے ساتھ نمی بھی اتنی ہی زیادہ بڑھنی شروع ہو جاتی ہے جس سے بڑوں کی جلد میں موجود خاص گلینڈز جلد میں چکنائی پیدا کرنے لگتے ہیں اور جب ضرورت سے زیادہ آئل پیدا ہونے لگ جائے تو اس سے نہ صرف جلد مرجھائی ہوئی لگنے لگتی ہے بلکہ یہ کیل اور مہاسوں کا بھی شکار ہوجاتی ہے۔
اس موسم میں جلد خشک ہو سکتی ہے اور جلن پیدا ہو سکتی ہے اس لیے جلد کی حفاظت کے لیے کوئی بھی موئسچرائزر استعمال کریں۔ اپنی سکن کو موئسچرائز کرنا بہتر ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب آپ اپنی جلد کو موئسچرائزر کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ایکنی سکن نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
موئسچرائزر چاروں موسموں کے دوران چہرے کے مہاسوں کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ موئسچرائزر جلد کو جلن سے بچانے میں مدد کرتا ہے، جو سوزش کو روکتا ہے اور چہرے پر مہاسوں کو بننے سے روکتا ہے۔
ایک طویل دن کے بعد، آپ کے جلد کو مناسب طریقے سے صاف اور نمی بخش کرکے گرمی اور نمی کو ختم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا، تو تیل اور پسینہ جلد پر جما رہے گا جو کہ ایکنی سکن کو دعوت دیتا ہے۔ لہذا اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنی جلد کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے اور سن بلاک لگائے۔
لوگ اکثر اسکرب کو ایکنی سکن کے ذریعے صاف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ضرورت سے زیادہ سخت اسکرب کو چہرے پر رگڑنا دراصل جلد کو خراب کرتا ہےگرمی کے موسم میں خواتین کچن میں کام کر تی ہیں۔ جبکہ مرد حضرات باہر دھوپ میں کام کرتے ہیں تو ان کا چہرہ الرجک ہوتا ہے۔
کیونکہ براہ راست سورج کی شعاعیں انسان کو متاثر کرتی ہیں۔ کام کے دوران بہت زیادہ پسینہ بہتا ہے، جلد پر بار بار پسینہ آنے سے چہرے کو بار بار صاف کیا جاتا ہے۔جس سےچہرہ سرخ ہو جاتی ہے۔ اور اس سے چہرہ جھلستا ہے۔
زبیر بھٹی نے مزید بتایا کہ چہرے کا ایک پیشہ ورانہ علاج فیشل ہے جو ایکنی سکن کو صاف کرنے اور چہرے کو تروتازہ رکھنے کے لیے بنایاگیا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک ماہر جلد کی رائے حاصل ہونی چاہیئے تاکہ کیل مہاسوں یا ایکنی سکن کو ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
ہمیں چاہے کہ گرمی کے موسم میں خود ساختہ ٹوٹکے اور علاج کی بجائے کنسلٹنٹ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔ پانی پینے کا استعمال زیادہ کرے۔ اور بلاوجہ دھوپ میں نہ نکلے۔