بڑھتی ہوئی گرمی اور اس کا حل، ساون کا مہینہ اور شجرکاری مہم
"دیکھو الزبتھ ہماری چارپائی کے اوپر پھر بادل آگئے ہیں یعنی آج رات پھر بارش ہوگی اور ہماری نیند خراب ہو جائے گی”
رات کو کھلے آسمان کے نیچے چارپائی پر لیٹے آسمان کی طرف دیکھتے میں نے اپنی بہن سے کہا۔
جب ہم بچپن میں صحن میں چارپائیاں بچھاتے، سب رات کو آسمان کے نیچے کھلی فضا میں سوتے اور ہر روز یہی ہوتا کہ بادل آتے وہ زیادہ اور گہرے نا بھی ہوتے تب بھی گھنٹے کے اندر بارش برسنے کا سبب بن جاتے اور موسلادھار بارش سے ساری دھول صاف ہو جاتی اور ٹھنڈی یخ ہواؤں کا راج شروع ہو جاتا۔
جبکہ آجکل ایسا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ آسمان پر گہرے بادل چھا جانے کے باوجود دور دور تک بارش کے آثار نظر نہیں آتے اور اسکی سب سے بڑی وجہ درختوں کی کٹائی میں روز بروز اضافہ اور شجر کاری مہم کا نہ ہونا ہے۔
جولائی کا مہینہ شروع ہونے کے ساتھ ہی ساون کی آمد ہو جاتی ہے اور اسی سے شجر کاری کے مہم کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس مہینے میں اگر سوکھی لکڑی کو بھی زمین میں لگا دیں تو وہ ہری ہو جاتی ہے یعنی درخت لگانے کا یہ سب سے موزوں ترین مہینہ ہے اس مہینے میں جتنی شجر کاری ہم کریں گے اسکا فائدہ اتنا ہی زیادہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے اس مہم میں لوگوں کی دلچسپی بہت کم ہے یا اگر یہ کہا جائے کہ عدم دلچسپی ہے تو غلط نا ہوگا۔
دوسری طرف لوگ برقی آلات جیسے فرج ،روم کولر اور اے سی خریدنے کے لئے اپنی توانائی لگا دیتے ہے اور اپنی آمدنی کا زیادہ ترحصہ اپنی صحت کی بجائے ائیرکنڈیشنر، روم کولرز وغیرہ خریدنے پر سرف کر دیتے ہیں لیکن شدید لو ڈشیڈنگ اور وولٹیج کم ہونے کی وجہ سےحسرت کے سوا کسی کے پاس کوئی چارا نہیں ہوتا ۔ اور یہ سب اسی لئے ہو رہا ہے کہ لوگوں میں شجر کاری مہم کی آگاہی نہیں ہے انکو یہ اندازہ نہیں کہ ایک درخت لگانے سے ہمیں قدرتی طور پر درجہ حرارت میں کتنی کمی ہو تی ہے۔ کیونکہ ایک دس گیارہ فٹ کا درخت تین ائیر کنڈیشنر کے برابر ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔
اگر کسی بھی علاقے میں اوسطاً ۵۰ گھر ہو اور وہ سب آنے والی شجرکاری مہم کے دوران ایک ایک پودا بھی لگا دیں اگر سارے کامیاب درخت نہیں بنتے تو ۴۰ تو تناور درخت بن سکتے ہیں اور اسکا فائدہ بہت سے لوگوں کو ہوگا۔
جب بھی کبھی میں پشاور سے نکل کر اپنے گاؤں کی طرف سفر کرتی ہوں تو جہاں پر سایہ دار درختوں کے جھنڈ آ جاتے ہیں وہاں ہم رک جاتے ہیں یہ اسی لئے کرتے ہیں کہ ان درختوں کے سایہ میں بیٹھ کر درجہ حرارت میں نمایاں حد تک کمی محسوس ہوتی ہے۔
جس سے اس سخت گرمی میں ٹھنڈک کے احساس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ درخت کاٹ کر ہم اپنے ساتھ کتنا بڑا ظلم کررہے ہوتے ہیں اور اس ظلم کو خوشی خوشی اس وقت تو قبول کر لیتے ہیں جبکہ اس کا خمیازہ ہمیں بعد میں شدید انداز میں بھگتنا پڑتا ہے۔
آئیے ہم سب مل کر اس سال شجر کاری مہم کے دوران اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالیں اور اپنے آنے والے کل کو سر سبز اور خوشگوار بنائیں۔