موسمیاتی تغیر کی وجہ سے پشاور میں عمارتی طرز تعمیر میں نمایاں تبدیلی
نشاء عارف
پاکستان میں زمانے قدیم سے لے کر اب تک گھر کے تعمیراتی انداز وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اگر 1947 سے پہلے کی بات کی جائے تواس زمانے کے لوگ مختلف طرز کے گھروں کو پسند کرتے تھے جبکہ امیر لوگوں کی کوٹھیاں کافی نقش و نگار والی ہوتی تھی۔ جواب بھی تعمیر میں اپنی مثال آپ ہے ۔
جبکہ مڈل کلاس بھی گھر کی تعمیر نقش و نگار کے ساتھ کرتے تھے لیکن وہ گھر کم ہوادار یا روشنی والے ہوتے تھے۔ ان کے گھر بہت تنگ و تاریک تین یا چار منزلہ ہوا کرتے تھے ۔ دوسری جانب گاؤں میں شروع سے ہی ایک ہی سٹائل کے گھر ہیں جیسے کمرے اور سامنے کھلے برآمدے ۔ بنسبت شہر کے گاوں میں زیادہ تر گھروں کی تعمیر میں فرق دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ بڑے بڑے شہروں میں ہر 10، 15، سال کے بعد تعمیرات عمارت میں واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔
اگر آج کل کی بات کی جائے تو ایسے گھر بنائے جاتے ہیں جو کھلے ہوا دار ہوتے ہیں۔ پہلے زمانے میں گھر پر بہت سے نقش ونگار کیا جاتا تھا، خوبصورت ڈیزائن سے لوگ گھر بناتے تھے لیکن اب گھر کی تعمیر میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں گھروں کو زیادہ تر خوبصورت بنانے پر اہمیت دی گئی ہے۔ جو تغیراتی تبدیلی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
پہلے لوگ اپنی مرضی سے تین تین چار منزلہ مکان بناتے تھے جو تاریک اور بنا ڈئزائن کے ہوتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب مڈل کلاس کے لوگ بھی نقشے پر گھر بنانے لگے ہیں جس میں مختلف قسم کے دروازے کھڑکیاں اور ہوا دار روشن دان بنائے جاتے ہیں ۔ ساتھ میں پودے لگانے کے لئے بھی کوئی نا کوئی جگہ مختص کی ہوتی ہے۔ جو خوش آئند ہے۔
لگتا ہے کہ وقت کے نئے تقاضوں کے مطابق لوگ ہوا دار گھر پسند کرنے لگے ہیں۔ پہلے کہاجاتا تھا کہ اگر رقبہ کم ہے تو ڈئزائن والا گھر نہیں بن سکتا لیکن ایسا نہیں ہے اب بہت ہی کم رقبے والے گھر بہت ہی عمدہ اور ہوادار بنائے جاتے ہیں جس میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ہونے کے ساتھ ساتھ دو دو خاندانوں کا گزارہ بھی بآسانی ہوتا ہے جس میں کچن سے لے کر واش رومز اور داخلی و خارجی راستے بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔
دنیا نے ترقی کی تو ہر چیز نے بھی ترقی کر لی ہے جس میں آج کل عمارات کی طرز تعمیر بھی شامل ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ہر گھر کی پہلی منزل اور دیگر بالائی منزل پر روشن دان یا بڑی بڑی کھڑکیاں بنائی جاتی ہیں جو نہ صرف گھر میں روشنی داخل ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ ہوا داخل ہونے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے گھر ٹھنڈا اور روشن رہتا جس سے زیادہ گھر میں لائٹ جلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور ساتھ میں گھر خوبصورت بھی نظر آتا ہے۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح پشاور میں بھی بجلی کے شارٹ فال اور ساتھ میں کلائمٹ چینچ کی وجہ سے کافی گرمی ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق گرمی میں چند سالوں کے بعد مزید اضافہ ہوگا تو اس صورت حال میں ایسے حالات میں کھلے روشن و ہوا دار گھر وقت کی ضرورت ہونگے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ کلائمٹ چینچ کی وجہ سے لوگ اپنا لائف سٹائل تبدیل کر رہے ہیں تو اپنے گھر کی تعمیر میں بھی کافی تبدیلی لا رہے ہیں اور مزید لائیں گے۔
جیسے ہر گھر کے سامنے گرین بیلٹ یا چھوٹا سا باغیچہ نقشہ میں ضرور ہوتا ہے جس کو تعمیر کے بعد بنایا جاتا ہے ۔ لگتا ہے کہ جدید عمارت کی تعمیر اور سٹرکچر کی وجہ سے کلائمٹ چینچ کے خاتمے میں تو نہیں لیکن روک تھام میں ممکنہ حد تک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔