تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں کیوں ضروری ہے؟
سندس بہروز
آج کل موسی کی موت کی باتیں ہر جانب ہو رہی ہیں۔ چاہے وہ سوشل میڈیا ہوں، اخبارات ہوں یا حجروں اور بیٹھکوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا موضوع گفتگو یہی ہے۔ موسی کے حوالے سے کوئی بھی ویڈیو ہو اس کے نیچے کمنٹس کی بھرمار ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی جان ہسپتال کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہوئی، تو کسی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے معلموں کی تنگ نظری کی وجہ سے موسی اب ہمارے بیچ نہیں رہا۔
خیر قصوروار تو دونوں ہیں یونیورسٹی کی انتظامیہ بھی اور ہسپتال کی انتظامیہ بھی، مگر آج کے بلاگ میں میرا موقف ان دونوں کو نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ نصاب ہے۔
اس حادثے نے میری توجہ ہمارے نصاب کی طرف مائل کی۔ اور مجھے اندازہ ہوا کہ جو برسوں سے ہمارا تعلیمی نظام تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے اس کی اصل وجہ نصاب ہی ہے۔ ورنہ کیوں ہمارے ملک میں خواندگی کی بڑھتی ہوئی شرح ہمیں ترقی نہیں دلا پا رہی۔ کیونکہ ہمارا نصاب جسے بہت سارے پڑھے لکھے لوگ بیٹھ کر طے کرتے ہیں وہ اتنا تنگ نظر ہے کہ اس میں وسعت کی گنجائش ہی نہیں۔ 21ویں صدی میں بھی ہم نے وہی گنے چنے مضامین پڑھنے ہیں جو کہ اس سے پہلے پڑھتے تھے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم باقی اقوام سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
پوری دنیا میں طلباء کے پاس بے شمار مضامین ہوتے ہیں جن میں سے وہ اپنا پسندیدہ مضمون چنتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی اور ترقی کا راز ہے کہ ان کو جو شوق ہوتا ہے وہی پڑھتے ہے وہی کرتے ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا رواج نہیں۔
ہمارے ہاں دستور یہ ہے کہ جو چیز ہمارے والدین کے نصاب میں موجود تھی وہی ہم نے بھی پڑھی۔ تو ترقی کہاں ہوئی؟ ہم آگے کہاں بڑھے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہم وہی اٹکے ہوئے ہیں؟
پڑھے لکھے نوجوان کسی بھی قوم کی طاقت ہوتے ہیں اور ہر ایک معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں مگر کیا ہم اپنے نوجوانوں کو وہ پڑھنے اور کرنے کو دے رہے ہیں جو وہ پڑھنا اور کرنا چاہتے ہیں؟۔ میرے والدین کے زمانے میں بھی انجینیئر اور ڈاکٹر بننے پر زورتھا اور آج بھی ہے یعنی کہ ہم وہی تنگ نظر کے تنگ نظر ہی رہے۔
موسیقی، فیشن، فلم بنانا، فوٹوگرافی، لکھاری بننا، اداکاری سیکھنا جیسے تخلیقی مضامین ہمارے نصاب میں شامل ہی نہیں۔ اور اگر کسی ادارے کے نصاب کا وہ حصہ ہے تو ایسے اداروں تک عام آدمی کی رسائی نہیں۔
ان جیسے تخلیقی مضامین کو نصاب میں شامل کرنا تو دور کی بات ایسے شوق رکھنے والے نوجوانوں کو نہ تو یونیورسٹی میں چھوڑا جاتا ہے نہ ہاسٹل میں ان کی جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی والدین ایسے شوق رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ آج کل ہم نصابی سرگرمیاں بھی تعلیمی اداروں میں اتنی کم ہو گئی ہیں کہ اگر کسی نوجوان کو موسیقی یا اداکاری وغیرہ کا شوق ہے بھی تو وہ اس کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس طرح سے ہمارا بہت سارا ہنر ضائع ہو جاتا ہے ۔
ہمارے نصاب پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم ہی انسان کو شعور دیتی ہے اور اس کے ذہن کو وسعت نوازتی ہے مگر اگر تعلیمی نظام ہی تنگ نظر ہوگا اور معلم ہی ہمیں کنویں کا مینڈک بنانا چاہیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر پائیں گے۔
سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔