"مجھے تو سیلفی لینی ہے کچھ سیکھنے تھوڑی آئی ہوں”
سعدیہ بی بی
آج انسانی ابادی بڑھ کر سات بلین سے تجاوز کر چکی ہے۔ کیمرے پہلے فوٹوگرافر کے کاندھے پر ہوتے تھے ، اب ہر کسی کے ہاتھ میں اگئے ہیں اور بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ ، اینڈرائڈ فون اور سوشل میڈیا کے حسین امتزاج سے بہت سی منفرد عادات نے جنم لے لیا ہے جن میں سیلفی کو امتیازی مقام حاصل ہے بلکہ اسے اگر عادت کی بجائے وبائی مرض کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ اس کے مضمرات سے شاید ہی کوئی شخص محفوظ ہو ۔ روزمرہ کے معمولات زندگی میں سیلفی ایک ٹھوس حقیقت کا روپ دھار چکی ہے، خاص کر اج کل سلیبرٹی کے ساتھ اور کسی پروفیشنل بندے کے ساتھ سیلفی لینے کا جن ہر کسی کو چڑھا ہوا ہے۔
کچھ دن پہلے راج راجو اور ان کی مسز چندہ راج ( جو کہ راولپنڈی کے بہت بڑے ایونٹ ارگنائزر ہیں ) نے پشاور میں بیوٹیشنز کے لیے ون ڈے ماسٹر کلاس کا انعقاد کیا جس میں پشاور کی تمام بیوٹیشنز اور سٹوڈنٹس کو دعوت دی گئی تاکہ ہم سب شریک ہوں اور ہمیں مزید سیکھنے کو ملے۔ اس کلاس کی مہمان خاص اداکارہ و ماڈل ” نادیہ حسین ” تھیں۔ جو کہ اس ماسٹر کلاس کی رونق تھی اور سب کی نظریں دروازے کی جانب تھی کہ وہ کب ائیں گی۔ نادیہ حسین کے انے سے پہلے یامین نے ایز آ موٹیویشنل سپیکر کے طور پر تقریب کا اغاز کیا۔ انہوں نے ہمیں بیٹیوں ، ماؤں اور بہنوں کی طرح مخاطب کر کے صرف ایک ہی بات سمجھائی کہ اج یہاں جو بھی ہستی آرہی ہیں وہ بھی ہماری طرح ایک انسان ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں تب جا کر وہ اج ایک کامیاب ماں ایک کامیاب بیوی ایک کامیاب بیٹی اور بہن بنی ہیں۔
اپ لوگوں کے یہاں انے کا مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ جیسے یہ کامیاب ہوئی ہیں ایسے ہی ایک دن آپ کو بھی ان کی جگہ کھڑا ہونا ہے یا ان جیسا بننا ہے۔ اپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ نادیہ حسین کے ساتھ سیلفی لے کر ہم ان جیسے بن جائیں گے یا کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر اسی سوچ کے ساتھ آئے ہیں تو یہ اپ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ تو اپ ان کے کام پر توجہ دیں گے نہ کہ سیلفی سیلفی کریں گے۔
یہ باتیں سن کر میرے دل میں مزید ایک جوش سا پیدا ہو گیا کہ اج تو کچھ سیکھ کر جانا ہے۔ پورے ہال میں کچھ دیر کے لیے سناٹا سا چھا گیا مجھے ایسا لگا جیسے کہ ہال میں بیٹھے سبھی لوگ سر کی بات سے متفق ہو گئے ہیں اور وہ بھی کامیاب ہونے ائے ہیں لیکن جب نادیہ حسین ائی ان کا استقبال کیا گیا تو میں بالکل فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ان کے اگے انے کا انتظار کر رہی تھی۔ جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک عجیب سی صورتحال تھی ۔ سبھی اپنی جگہ چھوڑ کر نادیہ حسین کے گرد کھڑے سیلفیاں بنا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ ایک انسان کے اوپر گھر کی چاروں طرف کی دیواریں گر گئی ہوں اور وہ بیچ میں پھنس گیا ہو ۔ یہی حال اس وقت نادیہ حسین کا تھا۔
میرے ساتھ بیٹھی ایک لڑکی تیزی سے اٹھی میں نے اسے روک کر پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو ۔ "کہتی ہے میں نے بھی سیلفی لینی ہے ۔ میں نے کہا لگتا ہے سر کا دیا ہوا لیکچر تم سب نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا ہے۔ کیا اج تم یہاں سیلفی لینے کے لیے ائی تھی یا کچھ سیکھنے ائی تھی۔ تو اگے سے جواب ملا کے سچ کہوں تو مجھے ان کے ساتھ سیلفی لینی تھی کچھ سیکھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں”۔ یہ کہہ کر وہ بھی اس ہجوم میں گھس گئی ۔ ہر جانب سے ایک ہی اواز سنائی دی ” میم میرے ساتھ ایک سیلفی پلیز ” ۔ میں گھر سے اس چاہ میں نکلی تھی کہ مجھے ایک پروفیشنل لیڈی سے کچھ سیکھنے کو ملے گا ۔ شاید ہی کوئی یہ ارادہ کر کے گھر سے نکلا ہوگا کہ اس کلاس میں سے ہم کچھ نہ کچھ سیکھیں گے لیکن مجھے اس بات پر بے حد افسوس ہوا کہ کچھ سیکھنے کی بجائے ان کے لیے سیلفی زیادہ ضروری تھی۔
شروع سے محض شوبز سٹارز ، قومی ہیروز ، میڈیا اینکرز ، معروف سیاسی شخصیات ، مشہور کھلاڑیوں اور نمایاں سماجی کرداروں کے ساتھ سیلفی کا رواج پڑا ۔ عوامی اجتماع ، جلسے جلوسوں ، شاپنگ مالز اور ایئرپورٹس پر ملنے والی شخصیات کے ساتھ سیلفی کو اپنے لیے اعزاز سمجھا گیا۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ جس کے ساتھ ہم سیلفیاں لیتے ہیں کیا ہم بھی کبھی ان جیسے بن سکتے ہیں ؟ لیکن کبھی ہمارے ذہن میں یہ سوچ کیوں نہیں اتی کہ ہمیں ان جیسا بننا ہے کیونکہ ہم صرف یہ بول سکتے ہیں کبھی ان جیسے کامیاب ہونے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ جن کو کامیاب ہونے کی لگن ہو نہ تو وہ دن رات اسی کام پر اپنی نظر جمائے رکھتے ہیں نہ کہ سیلفیاں لے کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے خود کو کامیاب کرتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ شروعات سے اپنے بچوں کے ذہن میں ایسی تصویر کشی کریں کہ جس سے ان کے ذہن میں یہی خیال ائے کہ سیلفی لینے سے کوئی کامیاب نہیں ہوتا۔ ہاں وہ جس کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔