بلاگزلائف سٹائل

نوکری تو سرکاری ہی کرنی ہے

 

سندس بہروز

"سرکاری نوکری آج کل کے دور میں حاصل کرنا عذاب ہے ہم جیسے درمیانے طبقے کے لوگوں کے لیے۔ کیونکہ نہ تو ہم رشوت دے سکتے ہیں نہ ہمارے پاس کوئی تگڑی سفارش ہوتی ہے۔ اور ویسے بھی جو ادارہ اسامیوں کا اعلان کرتا ہے وہاں 80 فیصد تو پہلے سے ہی متعین شدہ افراد کو لیا جاتا ہے اور ہم جیسوں کو کسی نہ کسی بہانے سے رد کر دیا جاتا ہے۔”

یہ تقریر میرے ایک رشتہ دار نے سرکاری نوکری کے پیچھے اپنے قیمتی سات سال ضائع کرنے کے بعد کی اور وہ آج بھی کوئی نوکری نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ بضد ہیں کہ نوکری تو سرکاری ہی کرنی ہے۔

ان کا یہ گلہ ٹھیک بھی ہے۔ آج کل سفارش اور رشوت کے بغیر کام ہونا آسان نہیں۔ اب تو فیشن یہ بن چکا ہے کہ جس کو جتنے گریڈ کی نوکری چاہیے وہ اتنے پیسے دیں۔ وہ پیسہ پی این سے لے کر افسر تک تقسیم ہوتا ہے پھر کہیں جا کر بات بنتی ہے۔

مگر میرا ماننا ہے کہ آج کل سفارش اور رشوت کے بغیر کام ہونا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر انسان کے پاس قابلیت ہے تو وہ کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے کیونکہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ ہاں تھوڑا زیادہ خوار ہونا پڑتا ہے اور تھوڑی زیادہ محنت درکار ہوتی ہے مگر کام ہو جاتا ہے۔

اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سرکاری نوکریوں کی آس میں بیٹھے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سرکاری نوکری کرنے والے کو جو عزت ملتی ہے وہ پرائیویٹ نوکری کرنے والے کو کبھی نہیں ملتی چاہے اس کی تنخواہ اور مراعات سرکاری نوکری کرنے والوں سے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری نوکری میں نکالنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ وہ ایک مستقل نوکری ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری میں گریڈ کی چمک دمک سے لوگ دوسروں پر کافی رعب ڈالا جاتا ہے جو کہ نجی اداروں میں نہیں۔

مگر یہ ایک غلط نظریہ ہے۔ آج کل پرائیویٹ میں بھی لوگ اچھا خاصا کما رہے ہیں۔ ان کو مراعات بھی اچھی مل رہی ہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری نوکری کے ساتھ ایک یہ سوچ جڑی ہوئی ہے کہ سرکاری نوکری میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی جب کہ نجی اداروں میں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور یہ کہ سرکاری نوکری میں آپ سے کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ نجی اداروں میں آپ سے ہر کام کی پوچھ گچھ ہوگی۔

اگر اسی طرح ہمارے بہت سے نوجوان سرکاری نوکریوں کا انتظار کرنے لگے تو بے روزگاری ہمارے ملک میں اور بڑھے گی۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سرکاری آسامیوں کا اعلان بالکل نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے مگر سرکاری آسامیاں اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ ہمارے ملک کے تمام نوجوانوں کو بھرتی کر سکے اور اگر آسامیوں کا اعلان ہوتا ہے اور لوگ اس کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو ایک بہت بڑی بات جو میں نے ان نوجوانوں میں دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ٹیسٹ کے لیے اپلائی تو کر دیتے ہیں مگر اس کے بعد ٹیسٹ کی تیاری نہیں کرتے جس کی وجہ سے بہت سارے نوجوان ٹیسٹ کو پاس نہیں کر پاتے۔ اور بعد میں ان کو شکوہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس سفارش نہیں تھی اس لیے ہمیں نوکری نہیں ملی۔

مجھے لگتا ہے کہ اگر کوئی حلال رزق کا حصول چاہتا ہے، خودمختار ہونا چاہتا ہے اوراس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کو یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ یہ نوکری سرکاری ادارے کی ہے یا نجی ادارے کی۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سرکاری نوکری کے لیے کوشش نہیں کرنی چاہیے مگر ہاں یہ غلط ہے کہ سرکاری نوکری حاصل نہ کر سکنے پر انسان فارغ بیٹھا رہے اور وقت ضائع کرے۔

زندگی میں بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے اکثر پہلے چھوٹے قدم لینے پڑتے ہیں۔

سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button