شادی کی منتظر پینتیس سالہ دو کروڑ خواتین
حمیراعلیم
پاکستانی قوم بے حد ویلی اور عقل سے پیدل ہے اور اس کا ثبوت ہم اکثر و بیشتر دیتے ہی رہتے ہیں۔ خصوصا جب دین کی بات ہو تو کبھی ہمیں حروف والی قمیض پر قرآن لکھا نظر آ جاتا ہے کبھی کیو آر کوڈ میں محمد لکھا اور کبھی کوئی زنگ آلود سیونگ مشین عائشہ و خدیجہ رضی اللہ عنہا کی لگتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دنیاوی معاملات میں ہم اپنی اعلی علمی قابلیت کا مظاہرہ کرنے سے ہرگز ہرگز نہ شرماتے ہیں نہ گھبراتے ہیں۔ اس کا حالیہ ثبوت وہ پیروڈی سروے ہے جس کے مطابق دو کروڑ پینتیس سالہ پاکستانی خواتین شادی کی منتظر ہیں۔
اس سروے کی ایک پوسٹ فیس بک پر لگنے کی دیر تھی ہمارے کنوارے کم اور شادی شدہ بھائیوں کا زیادہ جذبہ خدمت خلق جاگ گیا۔ اکثر نے دوسری شادی کے فوائد دینی و دنیاوی بڑی تفصیل سے بیان کیے۔ کنواروں نے بھی دل کے پھپھولے خوب پھوڑے کہ اگر خواتین اور ان کے گھر والے بڑی لمبی چوڑی ڈیمانڈز نہ رکھیں اور انہیں اپنی دامادی کے عہدے پر فائز کرنے کو اپنی سعادت سمجھیں تو آج ان بدنصیبوں کی دو کروڑ بیٹیاں شادی شدہ ہوتیں۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ لڑکی والوں کی کیا ڈیمانڈز ہوتی ہیں یا لڑکے والوں کے کیا نخرے ہوتے ہیں اور دونوں میاں بیوی کے کیا فرائض ہوتے ہیں۔ اس پر پہلے بھی بہت بار قلم اٹھا چکی ہوں اس لیے آج کے موضوع پر رہتے ہوئے ان سب بھائیوں کی تھوڑی سی توجہ درکار ہے۔
لفظ ‘ پیروڈی’ کا مطلب ہے کسی کی نقل کرنا۔ مزاحیہ یا نقلی تو پیارے ، جذباتی، خدمت خلق کے جذبے سے لبریز دل والے بھائیو! یہ سروے ہرگزہرگز درست نہیں اس لیے ریلیکس ہو جائیے۔ خواتین اتنی ڈیسپریٹ نہیں ہوئیں کہ دنیا کو خطرہ لاحق ہو جائے اور ان کے والدین انہیں چلتی بس میں کسی بھی مسافر کے ہاتھ ریوڑیوں کی طرح بانٹنے پر تیار ہو جائیں۔
یقین مانیے والدین کے گھر میں بیٹھی سب لڑکیاں اپنے والدین کی شہزادیاں ہیں جنہیں ان کے والدین اپنی استطاعت سے بڑھ کر اچھی زندگی دے رہے ہیں۔ پینتیس سالہ خاتون خود مختار ہے خود کفیل ہے نہ صرف اپنا بلکہ پورے خاندان کو بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ اس لیے فنانشلی اسے کوئی مسئلہ نہیں۔
اب آجائیے آپ کے نکاح نہ ہونے کی وجہ سے گناہ والے پوائنٹ پر تو بھائیو یہ گناہ لڑکی اکیلے تو کرتی نہیں جب تک کہ لڑکا بھی اس میں انوالو نہ ہو گناہ ممکن نہیں اور اکثر شادی شدہ مرد ہی ایسی لڑکیوں کے ساتھ گناہ میں شامل ہوتے ہیں۔ اب ذرا یہ بتائیے شادی شدہ مردوں کے پاس گناہ میں مبتلا ہونے کا کیا جواز ہے؟؟؟؟ جواز تو خیر غیر شادی شدہ مرد و عورت کے پاس بھی کوئی نہیں کہ قرآن و حدیث نکاح نہ ہونے پر روزہ رکھ کر نفس پر کنٹرول کا حکم دیتے ہیں۔ نہ کہ والدین،معاشرے یا کسی اور پر الزام دھر کر زنا کو جائز کرنے کا۔ قرآن و حدیث کے مطابق مرد ہو یا عورت افضل وہی ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور اللہ سے ڈرے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی جوان اور حسین عورت کسی مرد کو برائی کی دعوت دے اور وہ صرف اللہ کے ڈر سے اسے انکار کرے تو وہ روز قیامت اللہ تعالٰی کے عرش کے سائے تلے ہوگا۔ اب کوئی بہن بھائی مجھے یہ نہ بتائے کہ آپ کو کیا پتہ کتنا مشکل ہوتا ہے نفس پر قابو پانا کیونکہ میں بھی انسان ہوں اور اسی ملک کی رہائشی بھی اور مجھے یہ بھی کامل یقین ہے کہ انسان کے خالق کو اس کے بارے میں سب سے بہتر معلومات ہیں اور وہ جانتا ہے کہ انسان کس حد تک اپنے آپ کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ اگر اس نے نگاہ نیچی رکھنے کا حکم مرد و عورت کو دیا ہے پردہ کرنے کا عورت کو کہا ہے اور یک مومن و مومنہ کی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ چھپے دوست نہیں بناتے تو یقینا یہ سب گناہ سے بچنے کے طریقے ہیں۔
اب ایک بندہ ہر وقت شادی کو سر پر سوار رکھے گا تو دماغ خراب نہیں ہو گا تو کیا ہو گا؟؟؟؟ اس لیے بجائے گناہ میں مبتلا ہونے کے اپنے آپ کو اس قابل بنائیے کہ موسی علیہ السلام کی طرح لوگ گھر آ کر رشتہ دیں۔ اور ان دو کروڑ خواتین کی فکر میں گھلنا چھوڑیے کیونکہ اگلے ہی دن ایک اور پیروڈی سروے کے مطابق یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو کروڑ پاکستانی مرد بھی شادی کے منتظر ہیں۔
بس ایک درخواست ہے ذرا تسلی، حوصلے اور صبر کے ساتھ کسی پوسٹ کو پڑھ کر چند لمحے اس پر غور فرما کر اسے سمجھ کر پھر اس پر تبصرہ فرمائیں تو یقین مانیے زندگی بڑی آسان اور پرسکون ہو جائے گی۔