کیا واقعی مہنگائی میں کمی ہوگئی؟
ناہید جہانگیر
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی میں 1 اعشاریہ 6 فیصد کی کمی کے ساتھ اب مہنگائی 21.22 فیصد تک رہ گئی ہے۔
کویڈ 19 کے بعد جہاں پوری دنیا میں معاشی حالات خراب ہو گئے ہیں وہاں پر پاکستان کے حالات کافی بدتر ہوئے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور عوام کے ساتھ مخلص ممالک نے تو اپنی عوام کو کافی سپورٹ کیا لیکن بد قسمتی سے پاکستان اور پاکستان جیسے غریب ممالک میں کاروبار اور معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ کچھ تو کورونا کے بعد اور باقی کسر کرپشن اور غیر مستحکم سیاسی حالات نے پوری کردی۔
سودا سلف خریدنے آئی ایک عمر رسیدہ خاتون مہنگائی کے حوالے سے کہتی ہیں کہ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب سرکارچند روپوں کی چیزیں سستی کر بھی لے تو اس سے غریب آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اتنی سمجھ اب ان پڑھ عوام میں بھی ہے کہ جہاں ایک دم 100 فیصد مہنگائی بڑھائے اور پھر دوسری جانب محدود چیزوں میں چند روپے کی ریلیف دیں یہ کیا مذاق ہے۔ بجلی کو ہی اب دیکھ لے اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ یا تو غریب لوگ بجلی کی چوری کریں گے یا پھر بجلی کاٹ دیں گے کیونکہ بل ادا کرنا تو ان کے بس کا کام نہیں ہے۔
ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق آٹا ،ٹماٹر، پیاز، لہسن، چاول ،سرخ مرچ، پیٹرول اور ڈیزل سمیت ، 160 شرح مہنگائی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ ایک ہفتے میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں 1 اعشاریہ 06 فیصد کمی ہوئی جبکہ سالانہ بنیادوں پر شرح مہنگائی کم ہو کر 21.2 فیصد کی سطح پر آگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتے آٹے ،ٹماٹر، پیاز، لہسن، چاول، سرخ مرچ، دال مسور، پٹرول ، ڈیزل سمیت 16 بنیادی ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ آلو، انڈے ،گوشت، دال چنا،مرغی کے گوشت سمیت 20 قسم کی اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا 15 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہی۔
پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے نوید کا کہنا ہے کہ پھچلے 15 سالوں سے انکا جنرل سٹور ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اس قسم کی مہنگائی نہیں دیکھی جسطرح اب ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہر دفعہ جب وہ جنرل سٹور کے لئے منڈی سے سامان لے کر آتے ہیں تو زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ پہلے تو سال یا 6 مہینوں کے بعد قیمت بڑھ جایا کرتی تھی لیکن اب تو روزانہ کی بنیاد پر قیمت تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
نوید نے مزید بتایا کہ شروع میں گاہک لڑتے تھے لیکن اب وہ بھی عادی ہوگئے ہیں یا شاید ان کو بھی اب معلوم ہے کہ اشیا ضروریہ کے ریٹس سرکار کی جانب سے ہے دکاندر تو خود مہنگائی سے پریشان ہے۔ کاروبار روز بروز خراب ہو رہا ہے کیونکہ اب ان کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ دکان کو مکمل بھر دیں۔ ان کے پاس اب جو کاروبار کی رقم ہے اس حساب سے اب بہت کم اشیا خریدی جا سکتی ہے جن سے چند سال پہلے پوری دکان بھر جاتی تھی۔
یاد رہے کہ پچھلے سال اپریل کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 13 اعشاریہ 37 فیصد جبکہ مئی کے مہینے میں 13 اعشاریہ 76 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ جون میں مہنگائی کی شرح 21 اعشاریہ 32 تک مہنگائی بڑھ گئی تھی۔
رواں سال مہنگائی کی لہر 23 فیصد سے بھی بڑھ گئی تھی جو حال ہی میں جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی میں 1 اعشاریہ 6 فیصد کی کمی کے ساتھ اب مہنگائی 21.22 فیصد تک رہ گئی ہے۔
ماہرین معاشیات کے مطابق منگائی کی اس شرح کو اگر تاریخ کے جھروکے میں دیکھا جائے تو اس قسم کی مہنگائی کی شرح 2008 اور 1974 میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ انکا مزید کہنا ہے کہ شرح مہنگائی اب بھی عام آدمی کی ماہانہ کمائی سے دوگنی ہے اور ان حالات میں غریب تو کیا مڈل کلاس آدمی کے لئے بھی ایک وقت کی روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے۔عالمی منڈی میں روپی کی قیمتی میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے شرح مہنگائی مزید بڑھ جائے گی۔