لوگوں کو لوٹنے کے لیے اب بندوق نہیں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے
نازیہ
مبارک ہو جی آپ کو جیتو پاکستان کی جانب سے 12 لاکھ روپے اور 30 تولے سونا مبارک ہو۔ مبارک ہو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں آپ نے رجسٹریشن کروائی تھی جس میں اپ کے ایک لاکھ روپے نکل آئے ہیں۔
مبارک ہو احساس راشن پروگرام میں آپ نے رجسٹریشن کروائی تھی برائے مہربانی آپ اس نمبر پہ رابطہ کریں اور اپنا راشن وصول کریں۔ یہ جملے تقریبا ہر پاکستانی نے سنے ہونگے اور موصول ہوئے بھی ہونگے۔
احساس پروگرام ہو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو یا جیتو پاکستان میں انعامات اور نقد رقم کے فراڈ سمیت بہت سے دیگر فراڈ کے ذریعے شہریوں سے کروڑوں روپے بٹورے جاتے ہیں۔
جیسے جیسے انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے ساتھ ساتھ میں سائبر کرائمز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈیجیٹل فراڈ کرنے والا آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص بھی ہو سکتا ہے اور دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھا ہوا انسان بھی ہو سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سی معاشی، معاشرتی، صنعتی اور سفری آسانیاں پیدا کی ہے وہی بہت سے مسائل اور رسک بھی پیدا کیے ہیں۔ پہلے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی تھیں اب جدت انے کے بعد نشانہ ہمارے موبائل فونز اور کمپیوٹرز ہیں۔ لوگوں کو لوٹنے کے لیے اب بندوق نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لوٹنے کے لیے لوگوں کو لالچ دیا جاتا ہے۔ ان کو فون کال آتی ہے کہ آپ کا انعام نکل آیا ہے اور تھوڑی سی غفلت کے باعث وہ ٹریپ ہو جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آج کل ان ڈیجیٹل فراڈ کا ہدف زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ اپنی کم فہمی اور لالچ کی وجہ سے وہ جلد باتوں میں آ جاتے ہیں۔
آج کل فراڈ کا اک نیا طریقہ چل رہا ہے۔ کسی نامعلوم نمبر سے فون کال کر کے لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ راستہ بھول گیا ہے۔ وہ ہمارے پاس موجود ہے اور اپ اسے لینے آجائیں جیسے ہی اس کے والدین جاتے ہیں تو وہ ان کو وہاں پر گھیر لیتے ہیں اور پھر ان سے پیسے وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے گھر والے ڈر کے مارے فوراً پیسے بھیج دیتے ہیں۔
ایک خاتون نے بتایا کہ کچھ دن پہلے میں نے بینک اکاؤنٹ کھلوایا تھا اور کل ہی مجھے ایک نمبر سے کال آئی کہ آپ نے ہمارے بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا ہے۔ اس کال والے نے خاتون کو بتایا کہ میں اپ کو ایک پن کوڈ بھیج رہا ہوں اپ یہ پن کوڈ مجھے بتائیں تاکہ اپ اپنا اے ٹی ایم کارڈ اور چیک بک وصول کر لیں تو اس خاتون نے وہ پن کوڈ بتایا جیسے دو دن بعد بینک سے اے ٹی ایم کارڈ اور چیک بک وصول کر تو لیا اور جب اپنا بینک بیلنس پوچھا تو زیرو تھا۔ پو پوچھنے پر عملے نے بتایا کہ نہ تو کسی نے فون کیا ہے اور نہ ہی وہ نمبر بینک کے کسی ملازم کا تھا۔
آپ لوگوں کے معلومات کے لیے اپ کو ایک بات بتاتی چلوں کہ بینک کبھی بھی کسی کو موبائل نمبر پر پیسے بھیجنے کا یا آپ سے آپ کی ذاتی انفارمیشن جیسے پن کوڈ یا پاس ورڈ کا نہیں پوچھتے بلکہ بینکس تو لوگوں کو ڈیجیٹل فراڈ سے بچانے اور سائبر سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
عوام کو سائبر کرائم یا ڈیجیٹل فراڈ سے بچانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا مختلف مہم چلاۓ جا رہے ہیں کہ خود کو کس طرح سے ڈیجیٹل فراڈ سے بچایا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل فراڈ سب سے زیادہ موبائل پر کیا جاتا ہے۔ موبائل کی سم فراڈ کرنے والے گروہ موبائل سم حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ یہ گلی محلوں اور بازاروں، لاری اڈوں، شاپنگ مال میں سمز بیچتے ہیں۔ بلکہ آج کل تو جگہ جگہ پر یہ موبائل سم والے کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ راشن لے لو اور ساتھ میں موبائل سم بھی لے لو لیکن یہ موبائل سم تب تک ان کو نہیں دیا جاتا جب تک ان سے ان کا شناختی کارڈ نمبر اور انگوٹھا نہیں لگایا جاتا۔ اور یوں یہ سم فراڈ کرنے کے لیے اور مختلف جرائم میں استعمال کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کا ٹارگٹ کم پڑھے لکھے لوگ، خواتین اور کم عمر بچے ہوتے ہیں۔
ڈیجیٹل فراڈ کی بے شمار مثالیں ہیں۔ یہ گروہ فیس بک، انسٹا گرام اور یوٹیوب پر ایکٹو رہتے ہیں۔ لوگوں کو امریکہ کینیڈا اور یورپ بھیجنے کے خواب دکھاتے ہیں۔ انویسٹمنٹ کا لالچ، پیسوں کے ڈبل ہونے کا لالچ دیتے ہیں۔
اب اس فراڈ سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ لالچ میں نہ پڑیں۔ کسی بھی نامعلوم کال کی صورت میں فوراً متوجہ ہو جائیں۔ اپنے موبائل، اے ٹی ایم کارڈ کے پن کوڈ اور بنک ایپلیکیشن کے پاسورڈ کسی کو بھی نا بتائیں۔ ہر دو تین مہینے بعد ان کو لازمی تبدیل کر دیں۔ 668 پہ اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر اپنے نام پر موجود سمز کی تعداد چیک کریں اگر کوئی ایسی سم ہے جو اپ کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور آپ نے نہیں نکلوائی ہے تو اسے فوراً بند کروائیں۔ کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم لازمی حاصل کریں تاکہ اپ کی ڈیجیٹل سیکیورٹی مضبوط ہو اور اپنے دوستوں اور فیملی ممبرز کو سائبر کرائم سے اگاہ رکھیں۔
اگر خدا نخواستہ آپ کے ساتھ فراڈ ہو جاتا ہے تو فوری طور پر ایف آئی اے کے ای میل آئی ڈی helpdesknr3c.gov.pk پر ای میل کریں۔ بلکہ اپ اپنی شکایت ایف آئی اے کے متعلقہ تھانہ میں جا کر بھی درج کروا سکتے ہیں۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ ڈیجیٹل فراڈ میں ملوث افراد اور گروہوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کر کے اور سائبر کرائم کے قوانین پر سختی سے عمل کریں تاکہ غریب عوام ان ڈیجیٹل فراڈیوں کے چنگل سے بچ سکیں۔