سیلاب کے نقصانات سے بچنے کے لیے عوام کو کیا کرنا چاہئے؟
حدیبیہ افتخار
غیر متوقع بارشوں نے خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں سڑکوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ سوات اور چترال میں رابطہ پل بہہ جانے سے کئی علاقوں کی ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ کٹ گیا ہے۔ اپریل کے مہینے میں مسلسل بارشوں کے بعد پہاڑی علاقوں میں غیر معمولی برف باری بھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جاتی سردی بھی لوٹ آئی ہے۔
بارشوں کے بعد اب ایک اور مشکل بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جن علاقوں میں گلیشیئر موجود ہیں موسم گرما شروع ہونے پر اس کا پگھلنا شروع ہوجائے گا۔ اگر موسم زیادہ گرم ہوگا تو پھر گلیشئیرز پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک طرف اپریل میں بارشوں کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہے تو دوسری طرف گرمی میں گلیشیئرز پگھلنے کا بھی خطرہ ہے جس کے بعد سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
دریاؤں کے کنارے آبادی کو سیلابی صورتحال سے بچنے کے لئے بروقت آگاہی انتہائی لازمی ہے تاکہ وہ ایسے صورتحال کے پیش نظر پہلے سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوسکے۔
پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ترجمان شہزاد انور نے ٹی این این کو بتایا کہ گزشتہ 12 اپریل سے بارشوں کا جو سلسلہ خیبر پختونخوا میں شروع ہوا یہ غیر متوقع بارشیں تھی۔ ایسا پہلے بہت کم دیکھنے کو ملا ہے۔ اپریل کے مہینے میں شدید بارشیں ہوتی لیکن ان کا دورانیہ کم ہوتا تھا۔ 20 سے 25 منٹ تیز بارش ہوتی تھی اور پھر موسم صاف ہو جاتا تھا جبکہ اس بار بارشیں مسلسل ہورہی ہے جس کی وجہ سے صوبے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی۔
انور شہزاد نے بتایا کہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں مختلف حادثات میں اب تک 863 افراد ہلاک جبکہ 3000 سے زائد گھر سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ہیں۔
حکومت عوام کو سیلاب کے نقصانات سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے اس سوال کے جواب میں انور شہزاد نے بتایا کہ جونہی محکمہ موسمیات کی جانب سے بارشوں کی پیشگوئی کی جاتی ہے تو پی ڈی ایم اے کی جانب سے جتنے بھی ضلعی انتظامیہ اور باقی متعلقہ ادارے ہیں انہیں ایک مراسلہ جاری کیا جاتا ہے کہ جو لوگ دریاؤں کے آس پاس کے مکانات میں رہائش پذیر ہیں انہیں محفوظ مقامات میں منتقل کیا جائے۔ مساجد میں اعلان کئے جائیں اور انہیں دریاؤں میں پانی کی سطح اونچی ہونے کی معلومات دی جائیں تاکہ وہ کسی بھی قسم کے نقصان کا سامنا نہ کریں۔
انور شہزاد نے بتایا کہ اگر یہ تدابیر اختیار نہ ہوتے اور لوگ اس پر عمل درآمد نہ کرتے تو اس سے زیادہ نقصانات کا خدشہ تھا۔
موسمیاتی تبدیلی ایک اہم مسئلہ ہے اور تقریباً ہر سال اس کی وجہ سے لوگ ایک خاص ذہنی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔ گھروں کا بنانا عام لوگوں کے لئے کوئی چھوٹی بات نہیں ہوتی اور پھر اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتے دیکھنا انتہائی سخت مرحلہ ہوتا ہے۔
لوگ کس طرح سیلاب کے نقصانات سے کم متاثر ہوسکتے ہیں اس حوالے سے انور شہزاد نے بتایا کہ اول تو لوگوں کو چاہئیے کہ حکومت کی جانب سے دیئے گئے احکامات پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ لوگوں نے غیر قانونی طور پر دریاؤں کے کنارے آبادی کی ہے اگر لوگ تجاوزات کو ختم کریں گے اور دریا سے دور گھر تعمیر کریں گے تو نقصانات کم ہونگے کیونکہ جو گھر زیادہ دریاؤں کے قریب ہوتے ہیں وہ جلدی سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔
عوام کو چاہئیے کہ ان نقصانات سے سبق حاصل کریں اور احتیاط کریں حکومت کے تدابیر پر عمل پیرا ہو اور ایسی جگہوں میں مکانات بنانے سے گریز کریں جہاں زیادہ سے زیادہ نقصان کا خطرہ ہو۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں۔