نشا عارف
ہم سب کو معلوم ہے کہ چند سالوں سے حکومت کی جانب سے تمام سرکاری سکولوں میں مڈل تک طالب علموں کو مفت کتابیں دی جاتی ہے۔ اس سال سرکاری سکولوں میں مڈل تک امتحانات ختم ہو چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایت کے مطابق بچوں کے نئے کلاسز میں داخلے بھی شروع ہو چکے ہیں۔ سرکار کی جانب سے تمام سرکاری سکولوں کو سخت احکامات بھی جاری کئے گئے ہے کہ سکولوں میں باقاعدہ کلاسز بھی شروع کردی جائے۔ جس پر عمل در آمد تمام سکول ہیڈز نے شروع کر دی ہے لیکن ساتھ میں جو سب سے اہم مسلہ ہے وہ یہ ہے کہ بچوں نے داخل ہونے ساتھ سکول آنا بھی شروع کر دیا ہے مگر ان کے پاس کتابیں نہیں ہیں۔
سکول اساتذہ نے رزلٹ سے پہلے تمام بچوں اور بچیوں سے ان کی پرانی کتابیں واپس لی تھی جو کہ ان اساتذہ کو نئی جماعتوں میں آنے والے بچوں کو پرانی کتابیں دینی تھی تاکہ سرکار کی بچت ہوجائے لیکن وہ پرانی کتابیں زیادہ تر کیا کہ تقریبا ساری پھٹی ہے جن میں پڑھنا مشکل کیا کہ ناممکن ہے۔ وہ اس قابل ہی نہیں کہ اس میں بچے اگلی جماعت مزید ایک اور سال تک پڑھ سکے۔
پوری کتاب میں چند صفحات موجود ہیں۔ ان چند صفحات میں بچے کیا پڑھیں گے اور وہ کیا سیکھیں گے کچھ بچے تو ایسے بھی ہیں جن کو یہ پھٹی کتابیں بھی نہیں ملی اور ان کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔
دوسرا اہم مسلہ جو سرکاری سکول کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے سکولوں کو 50 فیصد کتابیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس میں تمام عملہ کنفویز ہے کہ اب 50 فیصد کا کیا مطلب ہے کہ سکول میں آدھے بچوں کو کتابیں ملیں گی یا پھر اٹھ میں سے چار کتابیں بچوں کو ملیں گی۔ اگر آدھی کتابیں دیں گے تو وہ کون سی کتابیں سکول سے مفت ملیں گی اور باقی کون سی کتابیں بازار سے خریدنی ہیں اس کا بھی فی الحال پتہ نہیں چل سکا۔
یہاں پر ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگا کہ فرض کرے سکول میں کچھ بچوں کو کتابیں ملی اور کچھ کو نہیں تو والدین کو اس بات پر اعتراض ہوگا۔ سرکاری سکولوں کی کتابیں بازار میں نہیں ملتی اور ابھی سکولوں میں بھی کتابیں موجود نہیں اوپر سے حکومت پڑھائی شروع کرنے پر بھی زور دے رہی ہے اور باقاعدہ حکومت کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ بچوں کو پڑھائی شروع کریں تاکہ انکا قیمتی وقت ضائع نا ہو۔
وہ بچے جو سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہے وہ ایسے گھرانوں سے آتے ہیں جن کے لیے کتابیں خریدنا بہت مشکل ہے لیکن سرکار نے اب 50 فیصد دینے کی ہدایت جاری کی ہے۔
ان حالات میں اساتذہ اور سکول ہیڈز کیا کریں کیونکہ والدین کو سمجھانا ان کے لئے مشکل ہے۔ پرانی کتابیں اس قابل نہیں کہ اس میں بچے پڑھ سکے 50 فیصد کی سمجھ نہیں۔ اسی لیے وہ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان تمام مسائل کو جلد از جلد حل کریں تاکہ طالب علموں کا قیمتی وقت بچ سکے اور رواں سال کورس شروع کر سکے۔