بلاگزلائف سٹائل

تم نے فیشن ڈیزائنر نہیں ڈاکٹر بننا ہے

 

رعناز

ہمارے آج کل کے بچے بہت زیادہ تیز ہو گئے ہیں۔ میٹرک کرنے کے بعد سے ہی اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ انہیں کون سے فیڈ میں جانا ہے۔ انہیں مستقبل میں کیا بننا ہے۔ آیا ڈاکٹر بننا زیادہ اچھا ہے یا انجینیئر بننا۔ ٹیچر بننا زیادہ فائدہ مند ہوگا یا پائلٹ بننا۔

یہ بچے اپنے انٹرسٹ کے فیلڈ میں جانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ دن اور رات ایک کر کے ان تھک محنت کرتے ہیں، تاکہ اپنے پسندیدہ شعبے میں جا سکے اور اپنا نام کما سکے۔ ان بچوں کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھے نمبر لے کے آئیں تاکہ ان کو اپنے پسندیدہ یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ مل جائے اور یہ اپنے پسندیدہ فیلڈ میں پڑھ سکے۔

یہ تو ہو گئی بچوں کی پسند اور ناپسند اور ان کی محنت کی بات۔ اب آتے ہیں ان کے والدین کی طرف کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوتے ہیں؟ وہ اپنے بچوں کو کس فیلڈ میں دیکھنا چاہتے ہیں ؟ ان کی کیا خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بنے یا فیشن ڈیزائنر ؟ وہ ٹیچر بنے یا پائلٹ؟ ان کا بیٹا انجینیئر بنے یا کچھ اور؟ بس پھر ادھر سے ہی بچوں اور ان کے والدین کے اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر دو کیسز ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ایک کیس یہ ہوتا ہے کہ جس میں والدین اپنے بچوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کون سا فیلڈ پسند ہے۔ آپ نے کہاں پر اور کون سی پڑھائی کرنی ہے تو اس کیس میں بچے اپنے والدین کو اپنے پسندیدہ فیلڈ کے بارے میں بتا دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پسندیدہ فیلڈ ہے اور ہم نے ادھر جانا ہے اور ان کے والدین ادھر ہی ان کا داخلہ کروا دیتے ہیں ۔اس طرح بچوں کی خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے اور ان کا مستقبل بھی سنور جاتا ہے۔ کیونکہ وہ بچے اس فیلڈ میں چلے جاتے ہیں جو ان کو پسند ہوتا ہے وہاں پر وہ اچھی پڑھائی کر لیتے ہیں اور اچھے نمبروں سے پاس بھی ہو جاتے ہیں۔

اس کے برعکس دوسرا کیس یہ ہوتا ہے جس میں والدین کو بچوں کا پسندیدہ فیلڈ پسند نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ انہیں کسی اور فیلڈ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ صرف بتایا نہیں جاتا بلکہ باقاعدہ بچوں کو فورس کیا جاتا ہے کہ آپ نے ہمارے پسندیدہ فیلڈ میں جانا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچہ کہتا ہے کہ میں نے فیشن ڈیزائننگ پڑھنی ہے میں نے فیشن ڈیزائنر بننا ہے مگر اس کے والدین اس پر راضی نہیں ہوتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ نہیں تم نے فیشن ڈیزائنر نہیں بلکہ ڈاکٹر بننا ہے۔

کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اپنی بات بچے پر زبردستی مسلط کرنے کے کتنے منفی اثرات ہو سکتے ہیں؟ کتنا وہ بچہ مایوس ہو سکتا ہے ؟ کتناوہ ڈسکرج ہو سکتا ہے؟ کتنا یہ چیز ان کے دماغ پر منفی اثر کر سکتا ہے؟ یقینا بہت ہی زیادہ۔ وہ بچہ پھر اس طریقے سے کبھی نہیں پڑھ پاتا جتنا وہ اپنے پسندیدہ فیلڈ میں پڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ بچہ پھر کبھی اتنے اچھے مارکس نہیں لے سکتا جتنا وہ پہلے لیا کرتا تھا۔ کیونکہ اس بچے کا پھر وہ انٹرسٹ سرے سے رہتا ہی نہیں ہے جو اس کا پہلے ہوا کرتا تھا ۔اس طریقے سے اس بچے کا مستقبل برباد ہو جاتا ہ۔ے وہ نہ اپنے فیلڈ کا رہ پاتا ہے اور نہ ہی اپنے والدین کے پسندیدہ فیلڈ کا۔

لہذا والدین کو یہ چیز چھوڑ دینی چاہیے۔ بچوں کو فیلڈز کے حوالے سے فورس نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ زور زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ انہیں ادھر ہی بھیجنا چاہیے جہاں پر ان کا اپنا انٹرسٹ ہوتا ہے۔ اس طریقے سے وہ اچھے طریقے سے پڑھ سکتا ہے اور اپنا مستقبل سنوار سکتا ہے۔

رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button