بلاگزکھیل

پتنگ بازی، ایک جان لیوا کھیل

 

نازیہ

ایک دو دن پہلے ہی کی بات ہے، افطاری کرنے میں تھوڑا ہی وقت باقی تھا۔ فیصل اباد کا رہائشی آصف اپنی والدہ کے ساتھ افطاری کرنا چاہتا تھا اس لیے وہ تیزی سے بائیک چلا رہا تھا کہ اپنے گھر جا پہنچے کہ اتنے میں اچانک سے آصف کو اپنے گلے پر کسی چیز کے ٹکرانے اور شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ جس کے بعد آصف اپنی بائیک سے گرگیا۔ تکلیف کے باوجود اس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اس کا سر چکرا رہا تھا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ صرف چند ہی سیکنڈ میں آصف کے پورے کپڑے خون میں لت پت ہوچکے تھے اور یوں آصف کی زندگی کی ڈور کسی پتنگ باز کی  ڈور نے کاٹ دی۔ ملک میں روز اس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن پتنگ بازی کے شوقین اپنے شوق سے باز نہیں آرہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ آخر یہ پتنگ بازی ایک خونی کھیل کیسے بن گیا؟ دو دہائی قبل بسنت کو ایک ثقافتی کھیل کا درجہ حاصل تھا۔  پنجاب میں فروری کی آمد کے ساتھ ہی بہار کے استقبال اور بسنت منانے کے لیے بطور خاص پتنگ بازی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر اس رنگ بھرے تہوار کو نظر لگ گئی اور وقت کے ساتھ نہ صرف اس کھیل کو غیر شرعی قرار دیا جانے لگا بلکہ پتنگ اڑانے میں استعمال کی جانے والی غیر قانونی ڈور کا استعمال بسنت پر پابندی کا باعث بنی۔

بسنت کا نام آتے ہی ہر دوسرا بندہ کہتا ہے کہ ایسی بسنت پر ہم لعنت بھیجتے ہیں جس میں معصوموں کی گردنیں کٹیں اور موٹرسائیکل سوار خون میں نہا کر قبر میں جا لیٹے۔ لیکن دوسری طرف پتنگ باز اپنا شوق پورا کرنے پر بضد ہے۔ کسی ایک جان کی قیمت پر پتنگ بازوں کو تفریح کی اجازت دینا سراسر ظلم ہے۔

نیلے آسمان میں سفید، اودے اور سرمئی بادلوں کے ساتھ ہوا کے دوش پر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی رنگ برنگی پتنگیں سب کی توجہ اپنی جانب تو کر لیتی ہے۔ مگر ان جانوں کا کیا جو پتنگ کی ڈور سے ختم ہوجاتی ہے۔ پاکستان بھر میں پتنگ کی اس قاتل ڈور نے درجنوں افراد کو شدید زخمی کیا ہے جبکہ کئی افراد اس سے جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں۔

اس سال کے شروع ہوتے ہی گلے پر ڈور پھرنے سے کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئیں۔ حالانکہ انسداد پتنگ بازی ایکٹ بھی موجود ہے لیکن پاکستان میں کب قانون پر صحیح عملدرآمد ہوا ہے؟ پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاؤن تو کبھی نہ کبھی ہو جاتے ہیں مگر ان کی کارروائیاں تو صرف معصوم بچوں کی پکڑ دھکڑ تک ہی محدود ہے۔

اخر کیوں اس قاتل ڈور اور پتنگیں بنانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کیا جاتا ؟ جب مارکیٹ میں پتنگیں اور یہ ڈور بنے گی ہی نہیں تو پتنگ باز کیسے اس کھیل کا حصہ ہوں گے؟ لیکن کمائی کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔

پتنگ باز جیت کے شوق میں دوسروں کی پتنگ کاٹنے کے لیے ایسی دھاتی ڈور کا استعمال کرتے ہیں جسے مختلف کیمیکلز ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ جس سے ڈور مضبوط ہو جاتی ہے جو آسانی سے نہیں ٹوٹتی اور یہی ڈور کسی راہ گیر، موٹرسائیکل یا کھلی گاڑیوں میں سوار لوگوں کا گلا کاٹ ڈالتی ہے۔ یہ خطرناک ڈور کانچ کے ٹکڑوں، نائیلون، دھات اور کیمیکل کا امیزہ ہوتا ہے جو کسی چھری کی طرح تیز ہوتے ہیں۔ جب ایسے ڈور کی پتنگ کٹ جائے تو وہ ڈور نیچے کی جانب گرتی ہے جسے پتنگ باز اوپر کی طرف تیزی سے کھینچتے ہیں اور ایسے میں وہ کسی راہگیر یا موٹرسائیکل سوار کے لیے کسی تلوار سے کم نہیں ہوتی۔

ہر کھیل کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں تو حکومت کو کچھ اصول وضع کرنے چاہیئے۔ پتنگ بازی پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ اس جان لیوا کیمیکل زدہ دھاتی ڈور پر سخت پابندی لگانی چاہیئے جو ایسے حادثات کی وجہ بن رہی ہے۔ پتنگ بازی کے لیے مخصوص جگہیں مختص کی جانی چاہئیں جہاں حادثات کا خدشہ نہ ہو۔

حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ بسنت کو ایک کھیل ہی رہنے دیں۔ کسی کے لیے مصیبت نہ بنائیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کو سمجھائیں اور ان پر کڑی نظر رکھیں۔ پتنگ باز ایسی ڈور کا استعمال نہ ہر گز نہ کریں جو حادثات کا باعث بنیں۔ موٹر سائیکل سواروں کو خاص طور پر پتنگ کی اس قاتل ڈور سے بچنے کے لیے ہیلمٹ کا استعمال کرنا چاہئے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button