بلاگزلائف سٹائل

"کام بھی ہو گیا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلا”

 

سعدیہ بی بی

رمضان کا مقدس مہینہ ہے اور اس میں ہر صاحب استطاعت اپنی حیثیت کے مطابق غریبوں ، مسکینوں کو زکوۃ دیتے ہیں۔ کوئی مالی لحاظ سے غریب کی مدد میں پیش پیش ہیں تو کوئی افطاری کا بھرپور انتظام کر کے غریبوں کو افطاری کروا رہے ہیں۔ یہ ان کا بڑا پن ہے جو غریبوں کا حق ان تک پہنچا رہے ہیں۔ اب ان میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو غریبوں کا حق کھا رہے ہیں۔ ہمارے علاقے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں ہمارے ایم پی اے نے غریب گھرانوں میں راشن تقسیم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جس کا جوحق ہے اس تک پہنچ جائے اور اس کے لیے ہر علاقے سے ایک ایک سربراہ مقرر کیا گیا تاکہ وہ اپنی زیر نگرانی اپنے علاقے کے بندوں میں راشن تقسیم کریں۔

اب ہرعلاقے سے ایک نگران تھا جو اپنی ڈیوٹی بخوبی انجام دے رہا تھا۔ ہمارے علاقے کے نگران ہماری جان پہچان والے تھے۔ انہوں نے اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے کی۔ راشن لینے کا طریقہ کار یہ تھا کہ ہر گھرکا مرد اپنے ائی ڈی کارڈ کی فوٹو کاپی اپنے علاقے کے نگران کے پاس جمع کرواتا اور اس سے راشن دے دیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا۔ میرے بابا کے دوست دوسرے علاقے کے نگران تھے۔ بابا نے ایک دن کال کر کے ان سے پوچھا کہ اپ کا کام کیسا جا رہا ہے تو انہوں نے فخر سے جواب دیا کہ میں اپنا کام کب کا ختم کر چکا ہوں راشن بھی تقسیم ہو گیا اور ایم پی اے کے پاس لسٹ بھی چلی گئی۔ بابا حیران ہوئے کہ جو کام ہمارے علاقے کے نگران نے 10 دنوں میں کیا وہ کام یہ 5 دنوں میں کیسے کر سکتے ہیں۔

بابا نے ان سے ملنے کا کہا۔ کچھ دنوں میں ان کی ملاقات ہوئی۔ پہلے سلام پھر کلام اور کلام بھی ایسا کہ راز کھلتے گئے۔ بابا لوگوں کی اچھی دوستی تھی تبھی انہوں نے بابا کو سب کچھ بتا دیا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں سے ائی ڈی کارڈ کی فوٹو کاپی لی اور سارا راشن اپنے ہی رشتہ داروں اور گھر میں تقسیم کر دیا اور علاقے والوں کو بھنک بھی نہ ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ کام بھی ہو گیا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔ ایم پی اے صاحب بھی بہت خوش تھے کہ میں نے اپنا کام سب سے پہلے ختم کیا اور لسٹ بھی دے دی۔ بابا نے بہت سمجھایا کہ کل کو یہ بات نکل بھی سکتی ہے لیکن وہ ایک ہی رٹ لگائے تھے کہ کسی کو ککھ نہیں پتہ چلے گا۔ بابا نے بولا کہ تم نے کتنے غریب گھرانوں  کا حق مار کر اپنے رشتہ داروں میں راشن بانٹا ہے یہ بالکل ٹھیک نہیں کیا۔ تو اگے سے جواب ملا کہ میرے رشتہ دار بھی تو غریب ہی ہیں۔ بابا نے بتایا کہ وہ اس علاقے سے تو نہیں اس راشن پر حق علاقے  والوں کا تھا نہ کہ تمہارے رشتہ داروں کا۔ یہ ساری باتیں بحث کی جانب بڑھ رہی تھی اس لیے بابا خاموش ہو گئے۔

قوم اور معاشرے میں بطور ایک فرد ، جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ایک چیز واضح نظر اتی ہے کہ جب حقدار کو حق نہیں ملتا تو اس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ حقدار کو حق اس وقت نہیں ملتا جب معاشرے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بجائے ذاتی خواہشات اور اپنی ہی مرضی سے چلائے جائیں۔ معاشرے میں عدل و انصاف کی اواز کو دبانا اور سفارش و رشوت کا بول بالا ہونا ایک ایسے کلچر کو فروغ دیتا ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اور سماج کو موذی مرض لاحق ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ مرض ہمارے معاشرے میں بصورت سفارش ، رشوت ، اقربا پروری اور اثر و رسوخ کی صورت میں موجود ہے۔

پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ حقدار کو حق نہیں دیا جاتا۔ پھر چاہے وہ خیرات ہو، راشن ہو، نوکری ہو یا کچھ اور۔ پڑھا لکھا ویسے کا ویسا رہ جاتا ہے اور ایک ان پڑھ گورنمنٹ سیٹ پر بیٹھا نظر اتا ہے جب نااہل شخص کسی اہل اور قابل شخص کا حق مار کر سفارش کے زور پر بیٹھے گا تو پھر ملک کے ایسے ہی حالات رہیں گے۔ موروثی یا خاندانی سیاست پاکستان میں ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ اگر کسی سیاسی خاندان کے سربراہ قومی اسمبلی کی نشست پر کسی جماعت کے امیدوار ہیں تو انہیں کے بھائی ، بیٹے ، بیٹی ، بہو یا بیگم اس شہر یا علاقے سے دیگر قومی اور صوبائی نشستوں سے امیدوار نظر اتے ہیں۔ ہمارے حکمران بھی صرف اپنوں کو نواز رہے ہوتے ہیں کیونکہ ایک عام شہری کا سیاست میں نظر انا بہت مشکل ہے۔

ہمارے ملک پاکستان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ کمی ہے تو صرف معاشرے میں عدل انصاف کی۔ ہمیں چاہیے کہ رشوت کا خاتمہ کریں اور حقدار کو اس کا صحیح معنوں میں حق دیں۔ یہ بات واضح کرنا چاہوں گی غریب کا حق صرف سیاستدان نہیں کھا رہے بلکہ ہر کوئی اس میں ملوث ہے۔ کرپشن کا مسئلہ صرف بڑے لوگوں کا نہیں ہے ہر کوئی اپنے لیول پر کرپشن میں ملوث ہے۔

سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں ۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button