بچوں کی ذہنی صحت میں والدین کا کردار
رانی عندلیب
کہا جاتا ہے کہ بچوں کی شخصیت کے بننے میں والدین کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن اگر والدین بچوں کو وہ توجہ نہ دے جن کی ضرورت بچوں کو ہوتی ہے تو وہ ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بچوں کے بننے اور بگڑنے میں والدین کا سب سے بڑا ہاتھ ہے اور یہ حقیقت بھی ہےکیونکہ بچپن میں بچوں کے ساتھ جیسا بھی سلوک کیا جائے تو وہ پوری عمر ان کو یاد بھی رہتا ہے اور اس کا سب سے بڑا اثر ان کی شخصیت پہ بھی پڑتا ہے۔
ہماری روز مرہ باتوں میں کچھ ایسے جملے ضرور ہوتے ہیں جو بچوں کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتے ہیں اور وہ بچوں میں تلسماتی انداز سے بدلاو لا سکتے ہیں۔ ویسے تو ہر انسان اپنی زبان کے پیچھے ہی چھپا ہے لیکن والدین کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے پھر اس کے بعد رشتہ داروں کا۔ اس لیے ایسے خوبصورت اور اچھے الفاظ کا چناؤ بہت ضروری ہے جو بچوں کے دل میں اتر جائے اور انہیں یاد بھی رکھے اور ان کو ذہنی امراض اور نفسیاتی مریض بننے سے روکا جائے۔
ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل میں فرق
اس بارے میں ڈاکٹر اعزاز جمال کا کہنا ہے کہ ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ عموما لوگ اس فرق سے ناواقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ متاثرہ بچے کے مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ علاج میں بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل میں بنیادی فرق حسب ذیل ہیں۔ ذہنی امراض پیدائشی یا وراثتی ہوتے ہیں۔نفسیاتی مسائل حالات، ماحول ، رویوں اور طرز زندگی سے جنم لیتے ہیں لیکن کبھی کبھی خود ساختہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ذہنی امراض عموما ناقابل علاج ہوتے ہیں یا پھر ان میں کچھ حد تک سدھار لایا جاسکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو نفسیاتی مسائل قابل علاج ہو سکتے ہیں لیکن اس میں والدین کا تعاون ضروری ہے۔ ذہنی معذوری، ذہنی پسماندگی ، ذہنی کمزوری، مرگی وغیرہ ذہنی امراض ہے۔ ذہنی دباؤ، ٹینشن ، ڈپریشن فوبیا، کھانے پینے ، سونے جاگنے ، وغیرہ کی بے قاعدگی نفسیاتی مسائل میں شمار ہوتی ہیں۔
ذہنی مرض سے متاثرہ بچے کی عموما ساری زندگی اس مرض کے ساتھ گزرتی ہے۔ نفسیاتی مسائل سے متاثرہ بچے مختلف یا طویل علاج کے بعد عموما اپنے مسائل سے نجات حاصل کر لیتے ہیں ، متاثرہ بچے لکھنے پڑھنے یا کوئی ہنر سیکھنے کی صلاحیت سے بھی عموما محروم رہتے ہیں۔ متاثرہ بچے عموما زندگی بھر دوسروں کے تعاون اور مدد کے محتاج رہتے ہیں۔ ڈاکٹر اعزاز جمال کا مزید کہنا ہے کہ دیگر ترقیافتہ ممالک کے برعکس ہمارے ہاں پیدائش سے 16 سال تک عمر کے بچوں میں ذہنی اور نفسیاتی امراض و مسائل کی شرح بہت زیادہ ہے۔
لوگ کیا کہیں گے
ڈاکٹر اعزاز جمال کے مطابق ہمارے ہاں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب اس خیال سے والدین اپنے بچے کا مرض دوسروں سے چھپاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ بات کرتے ہی لوگوں کا رویہ بچے کے ساتھ تبدیل ہو جائے گا ,اس منفی رویے اور سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے, کیونکہ اگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ ایسے اداروں کو پاگلوں کے ہسپتال، اور سائیکولوجسٹ کو پاگلوں کے ڈاکٹر کے نام سے پکارتے ہیں۔ یعنی ان کے پاس جانے کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اپ کا بچہ پاگل ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہسپتالوں میں قائم ذہنی اور نفسیاتی امراض و مسائل کے شعبہ جات بالکل اسی طرح کام کرتے ہیں جیسا دیگر مختلف جسمانی امراض کے لیے مخصوص شعبہ جات ہوتے ہیں۔
ماہرین نفسیات بھی پاگلوں کے ڈاکٹر نہیں ہوتے بلکہ یہ تو بچے کے ہر طرح کے مسائل یا مرض کو سلجھا کر اسے نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنانے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ اکثر بچیاں جن کے رشتے یا شادی میں مسائل ہوتے ہیں، تو ان کے والدین اس ڈر سے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر جاتے کہ لوگ ان کے یا ان کی بچی کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ اکثر تو ایسا بھی دیکھنے میں ایا ہے کہ جب کسی دوسرے بھائی یا بہن کا رشتہ دیکھنے لوگ اتے ہیں تو گھر والے ایسے بچوں کو کمرے میں بند کر دیتے ہیں ، تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے ورنہ رشتہ یا شادی ہونے میں مسئلہ ہوگا ، اس طرح وہ بچہ زیادہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو گھر کی وجہ سے وہ رسپانس اور وہ توجہ نہیں ملتی جو اسے چاہئے ہوتا ہے۔
والدین کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بچے کو توجہ نہ دینا اس کو کمرے میں بند کرنا اس مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے ضروری ہے کہ اس مسئلے کے علامات ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کا باقاعدہ علاج کروایا جائے۔ ڈاکٹر اعزاز جمال نے کہا کہ اکثر والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر کے پاس یعنی ماہر نفسیات کے پاس اس لیے بھی لے کر نہیں جاتے کہ وہاں کوئی جان پہچان کا بندہ نہ ہو، کوئی رشتہ دار، یا دوست ہمیں نہ دیکھ لے ، یا خاندان میں بات نہ پھیلے، کہ ان کا بچہ نفسیات امراض کا شکار ہے لیکن یہ عقلمندی کی نشانی نہیں ہے کیونکہ والدین نہیں سوچیں گے تو اور کون سوچے گا؟
ذہنی و نفسیاتی مسئلے کے شکار بچے کو قابل نفرت یا باعث شرمندگی سمجھنا بھی غلط بات ہے۔ اکثر والدین جن کے بچے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے وہ ایک بچے کو زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ دوسرے کو کم توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ ذہنی یا نفسیاتی مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو ایک جیسی توجہ دینی چاہیے کیونکہ بچے توجہ کے مستحق ہیں۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور اگر کسی بچے میں کوئی نقص ہے بھی تو اس کو بار بار اس نقص کا احساس نہ دلایا جائے۔