بلاگزلائف سٹائل

گھر میں فارغ بیٹھے کیسے مثبت رہا جا سکتا ہے؟

 

سندس بہروز                                

کالج کے آخری دنوں میں ہم سہیلیاں اکثر بیٹھ کر یہ سوچنے میں کئی پل برباد کر دیتی تھی کہ گھر بیٹھ کر ہم کیا کریں گے۔ ہر ایک کو اپنے ارد گرد بکھرے ہوئے، مرجھائے ہوئے لوگوں کے ہونے سے ڈر لگتا تھا۔ کوئی اپنی کزن کی بوریت کی روداد سناتی تو کسی کی بہن گھر پر فارغ ہونے کے باعث سست اور کاہل ہو گئی تھی۔ اسی طرح کے خدشے ہمارے دلوں میں بھی تھے۔ کوئی گھر پر بیٹھ کر موٹا نہیں ہونا چاہتا تھا تو کوئی سست اور کسی کو منفی ہونے کا ڈر ستائے جا رہا تھا۔ اس میں غلطی ہماری بھی نہیں تھی۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا خود کو سکول اور کالج میں مصروف پایا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی اتنا کام مل جاتا کہ مشکل سے سیر و تفریح کا وقت نکلتا۔ کیونکہ ہم گھر پر بیٹھنے کے عادی نہیں تھے اس لیے اس سوچ کو خود پر حاوی کرنے میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔

ایک دن یہی فکر لے کر ہم اپنے استاد کے پاس چلے گئے۔ سر صادق نواز نے ہمیں بتایا کہ ‘بچے  کتاب کو کبھی مت چھوڑنا۔ ہمیشہ کتاب کا مطالعہ کرتے رہنا’۔ اس وقت تو یہ ہمیں عجیب حل دکھائی دیا مگر یقین جانیے گھر میں فارغ بیٹھے بیٹھے منفی خیالات آپ کو ایسے گھیر لیتے ہیں جیسے بازار میں بھیک مانگنے والے۔ کتاب کی دنیا میں ان سے پناہ پانا ایسے ہے جیسے گرمی کی تپتی دوپہر میں کسی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ جانا۔

میں نے دیکھا ہے کہ اکثر شادی شدہ خواتین بھی بہت چڑچڑی ہو جاتی ہے کیونکہ بچوں کی وجہ سے ان کا گھر سے باہر نکلنا اور لوگوں سے گلنا ملنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ تازہ ہوا تھوڑا سا بدلا ہوا ماحول تو ہر انسان کا حق ہے اور ایک جگہ کھڑے کھڑے تو پانی سے بھی بدبو انے لگتی ہے تو پھر تو انسان تو مرجھائے گا ہی۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسی خواتین کو کوئی نہ کوئی مشغلہ اپنانا چاہیے  اور دن میں ضرور اپنے لیے تھوڑا سا وقت نکالنا چاہیے چاہے وہ توڑا ہی کیوں نہ ہو۔ خود کو دیا گیا کم از کم ایک گھنٹہ بھی آپ کو دوبارہ سے ترو تازہ کر سکتا ہے اور آپ کے پورے دن کی تھکان اتار سکتا ہے۔

اکثر گھر میں بیٹھے بیٹھے سستی بھی بہت ہو جاتی ہے جس کو ہم ورزش سے بآسانی دور کر سکتے ہیں۔ روزانہ تھوڑی سی ورزش کو اپنا معمول بنانے سے انسان پھر سے چست وچاق ہو جاتا ہے۔ صبح سویرے یا شام میں آدھا گھنٹہ چہل قدمی بھی انسان کو تازہ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

اپنی زندگی کی گاڑی کے ڈرائیور ہم خود ہوتے ہیں اور یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو کسی منفی خیالوں کے کھائی میں پھینکتے ہیں یا کسی مثبت درخت کے سائے تلے کھڑے ہو کر ہنسی خوشی ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں کیونکہ زندگی تو ہمیں گزارنی ہے۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ گھر میں بیٹھ کر مرجھا رہے ہیں تو خود کو کتاب تحفے میں دیجئے اور کوئی مشغلہ اپنائیے اور ورزش کیجئے تاکہ آپ پھر سے تر وتازہ ہو سکے اور زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں.

سندس بہروز انگلش میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button