صحت

خیبرپختونخوا میں اور صوبوں کے مقابلے میں زچگی کے دوران شرح اموات زیادہ

 

ناہید جہانگیر

"تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد بلیڈنگ مسلسل ہورہی تھی جسکی وجہ سے کمر درد میں بھی کافی اضافہ ہوگیا تھا ساس نے کئی مرتبہ قریبی دائی کو دکھایا جسکے ہاتھوں میرے تینوں بچے پیدا ہوئے ہیں دائی کے مطابق بچے کی پیدائش کے بعد ایسا اکثرہوتا ہے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔”
پشاورکے بڈھ بیر علاقے کی حسن بی بی جن کی عمر اس وقت 35 سال ہیں۔ بتاتی ہیں ان کے 3 بچے ہیں اور تینوں بچے قریبی دائی کے ہاتھوں سے ہوئے۔ تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد سے ان کا خون مسلسل بہتا تھا 5 یا 6 دن ٹھیک ہوجاتی تھی لیکن پھر اگلے 10 یا 15 دن تک ان کی ماہواری جاری رہتی تھی۔

دائی نے بتایا تھا کہ بعض خواتین کو ایسا مسئلہ ہوتا ہے کوئی بڑی بات نہیں ہے اور گھریلو ٹوٹکوں کے استعمال کا مشورہ دیتی تھی۔ لیکن چند ماہ بعد حالت خراب ہونے کی صورت میں خاوند نے سرکاری ہسپتال پہنچایا۔ جہاں پر لیڈی ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد سرجری کا کہا کہ اندر کوئی کٹ لگا ہے جسکا آپریشن کرنا ضروری ہے۔
اس حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی گائناکالوجسٹ افروز خٹک بتاتی ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر بہت سی ایسی خواتین آتی ہیں جن کو کمر درد کی شکایت ہوتی ہیں۔ وہ زیادہ دن ماہواری کو سمجھتی ہیں کہ یہ حمل کے بعد کا نارمل خون ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا وہ نا تجربہ کار دائی کی وجہ سے بچے کی پیدائش کے دوارن کسی جگہ کٹ لگنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

عالمی ادارے صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 1 لاکھ خواتین میں سے 2 سو کے قریب ہر سال موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
دوسرے صوبوں کی نسبت خیبرپختونخوا میں زچگی کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ شرح اموات کی وجوہات میں صوبے کے مخصوص روایات بھی بتائے جاتے ہے۔ مجموعی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر 7 سیکنڈ میں ایک موت واقع ہوتی ہے جو قابل علاج وجوہات کے باعث ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او

دائیوں کے ہاتھوں زچگی کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟
نازیہ جو چارسدہ کے ایک گاوں سے تعلق رکھتی ہیں 3 دفعہ حمل ضائع ہونے کے بعد سرکاری ہسپتال اپنے معائنے کے لئے آئی ہیں۔ بتاتی ہیں کہ 2 سال قبل ان کی شادی ہوئی ہے ان 2 سالوں میں وہ 3 دفعہ حاملہ ہوئی۔
وہ اپنے علاج و معالجے کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ان کے گاوں میں اب بھی دائی کے ہاتھ سے بچہ پیدا کرنے کا رواج ہے جب بھی وہ حاملہ ہوتی اسی دائی کے بتائے ہوئے ہدایات پر عمل کرتی۔
اب ہسپتال آنے کا خیال کیوں آیا اس سوال کے جواب پر نازیہ نے کہا کہ شوہر گھر والوں کی ناراضگی کے باوجود لے کر آئے ہیں جہاں ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد دوائیاں لکھ کر دی ہے اور ایک مہینے کے بعد دوبارہ معائنے کے لئے آنے کو کہا گیا ہے۔
دوسری جانب نسرین (فرضی نام) جو ایک دائی ہیں جن کی عمر تقریبا اس وقت 65 سال ہے۔ بتاتی ہیں کہ 35 سال سے وہ اس شعبے سے منسلک ہیں۔ سینکڑوں بچے ان کے ہاتھوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پرانے زمانے میں ہر کوئی خاتون اپنے گھر اور چاردواری میں بچہ جنم دینے کی خواہش مند ہوتی تھی لیکن اب تو شاید رواج سا ہوگیا ہے کہ ہر لڑکی ہسپتال میں بچے کو جنم دینا چاہتی ہیں۔

لیکن ماہر امراض زنانہ ان تمام باتوں سے اتفاق ہی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں زچگی کے دوارن اموات کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی خواتین کی لاپرواہی ہے۔
ڈاکٹر افروز بتاتی ہیں کہ پختونخوا میں زیادہ تر خواتین دائیوں کی وجہ سے دوران زچگی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان پیچیدگیوں کو معمولی نا سمجھا جائے یہی آگے جاکر موت کا سبب بن جاتی ہیں۔ زچگی کے دوارن پیدا ہونے والے اموات کا 90 فیصد اموات یہی پیچیدگیاں ہی ہیں۔

حمل کے دوارن اموات کے اسباب
حمل کے دوارن اموات کے اسباب کے حوالے سے اسسٹنٹ پروفیسر سیدہ ابرار کہتی ہیں کہ زیادہ تر حاملہ خواتین 8 ہفتوں کے چیک اپ میں 4 بھی مکمل نہیں کرتی۔ پھر اگر خاتون نے دائی سے اپنا چیک اپ کیا ہو یا ان کے ہاتھوں سے اپنا ڈیلیوری کیس کریں تو دوران حمل مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ جو علاج اور سہولتیں ہسپتال میں ہوتی ہے وہ دائی نہیں کرسکتی۔
حاملہ خاتون کا خون زیادہ بہہ سکتا ہے، انفیکشن، زیادہ فشار خون، بچہ باہر آنے میں رکاوٹ پیدا ہو سکتا ہے۔ عین وقت پر ایک نارمل ڈیلیوری میں پیچیدگیوں کی وجہ سے آپریشن کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ بروقت طبی امداد نا ملنے کی وجہ سے خاتون لقمہ اجل بن سکتی ہیں۔ اس لئے اس ترقی کے دور میں بھی اگر کوئی ماہر یافتہ ڈاکٹر کی جگہ دائی سے ڈلیوری کرتی ہیں تو ان حالات کا مقابلہ کیسے ممکن ہے۔
ہسپتال میں جو بھی خاتون آتی ہیں ایمرجنسی کی صورت میں آتی ہیں اور لاپرواہی کا کیس ہوتا ہے۔ اب بھی حاملہ خواتین عطائی یا دائیوں کے ہتھے چڑھ رہی ہیں جن کو خطرات سے نمٹنے یا جاننے کی صلاحیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے نا صرف ماں بلکہ پیدا ہونے والے بچے کی جان بھی جا سکتی ہیں۔
پاکستان میں 1 ہزار بچوں میں 40.7 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں یا پیدائش کے دن ہی فوت ہوجاتے ہیں ( عالمی تنظیم جو بچوں کے لئے کام کرتا ہے) اس رپورٹ کے مطابق دینا کے اور ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے زیادہ بچے ہر سال مرجاتے ہیں شرح اموات میں دنیا میں پہلا نمبر پر ہے۔

نوزائیدہ بچوں کی اموات کی وجوہات

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی گائناکالوجسٹ افروز خٹک کہتی ہیں بچوں کی اموات کی خاص وجوہات میں دوران حمل ماں کا معائنہ نا کرنا شامل ہیں جو کہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ معائنے سے پتہ چلتا ہے کہ بچہ اور ماں کی صحت بہتر ہے کہ نہیں۔ مثلا ماں میں خون کی کمی تو نہیں ، فشار خون زیادہ یا کم تو نہیں ہے ، وزن حمل کے حساب سے بڑھ رہا ہے وغیرہ اسی طرح بچے کا گروتھ مہینے کے حساب سے درست ہے کہ نہیں۔ بچے کے پیٹ میں پوزیشن درست ہے وہ ٹھیک طرح سے حرکت کر رہا ہے۔ یہ تمام ایسی باتیں ہیں کہ اگر انکا وقت پر تشخیص نا ہوسکیں تو ماں اوت بچے کی جان خطرے میں ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں عطائی ڈاکٹرز اور دائیوں کے ہاتھوں حاملہ خاتون خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں پھر بڑے بڑے ہسپتال کے لئے بھی ان خطرات کو کم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق زچگی کے دوران اموات کا شکارہونے والی خواتین میں 15 سال سے لے کر 49 سال تک کی عمر کی خواتین شامل ہیں۔

عالمی ادار ہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق حمل اور پیدائش کے دوران خواتین اور نوزائیدہ بچوں میں اموات پر قابو پانے کے سلسلے میں پیشرفت گزشہ آٹھ سالوں سے جمود کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق موجودہ شرح کے حساب سے ساٹھ سے زیادہ ممالک 2030 تک ان اموات پر قابو پانے کے اہداف سے محروم ہونے کے راستے پر گامزن ہیں۔

حمل کے دوران اور بعد میں کیا بیماریاں ہو سکتی ہیں؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی گائناکالوجسٹ افروز خٹک کہتی ہیں کہ حمل کے دوران اور بعد میں خواتین میں مختلف بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں جیسے ہائی بلڈ پریشر ، انفیکشن، کمردرد، ذہنی امراض وغیرہ شامل ہیں جو ان کے بعد میں دوسرے بچے کی پیدا میں زیادہ خطرہ بن سکتا ہے۔

حاملہ خواتین کون سی غذا کھائیں جو حمل کے دوران سود مند ثابت ہو سکتی ہیں

ماہر غذائیت لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور ایمل خان بتاتے ہیں حمل کے دوران متوازن خوراک عورت کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ بچے کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دوران حمل وہ صحت مند غذا کھانے کی ضرورت ہے جس میں غذائی اجزاء زیادہ ہو اور چینی نمک اور چکنائی کا استعمال کم ہو۔
عام طور پر وزن بڑھنا معمول کی بات ہے تاہم بہت زیادہ یا بہت کم وزن بڑھنا بچے اور ماں کی دونوں کے لیے خطرے کو بڑھاتا ہے ایک متوازن غذا عموما حمل کے دوران غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے تاہم کچھ کھانوں میں بعض غذائی اجزاء کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو خاص طور پر حمل کے دوران تجویز کی جاتی ہے ان اجزاؤں میں فولک، کیلشیم ،آئرن آئیوڈین اور وٹامن ڈی جیسے غذائی اجزاء شامل ہے جو بڑھتے ہوئے بچے کی صحت کے لئے درکار ہے اور بہت سی پیدائشی بیماریوں کو روک سکتے ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگر کوئی خاتون حمل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو حاملہ ہونے سے کم از کم ایک ماہ قبل فولک ایسڈ سپلیمنٹ لینا شروع کر دینا چاہیے اور حاملہ ہونے کے بعد تین ماہ تک فولک ایسڈ سپلیمنٹ لینا چاہیے کیونکہ فولک ایسڈ سپلیمنٹس دماغ کو ریڑھ کی ہڈی کی پیدائشی معزوری کو روکتی ہے لیکن یاد رہے اگر اپ کوئی بھی سپلیمنٹس لینے پر غور کر رہے ہیں تو براہ کرام اپنے ڈاکٹر سے بات کریں کیونکہ ہر ایک انسان کی افرادی حالت کے لحاظ سے اس کی سپلیمنٹس کی ریکوائرمنٹ مختلف ہوتی ہے.

دوران حمل خواتین کو کچھ مخصوص کھانوں طلب بہت زیادہ ہو جاتی ہے ایسی حالت میں پروسیس فوڈ کی طلب زیادہ ہو جاتی ہے مطلب وہ خوراک جس میں چینی نمک یا چکنائی کا استعمال زیادہ کیا گیا ہوتا ہے لیکن حاملہ خواتین کو چینی نمک اور چکنائی والی خوراک سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ اس طرح کی خوراک کے سٹیشنل ڈائبٹیز یعنی حمل کے دوران شوگر کا مرض یا ہائی بلڈ پریشر جیسے مرض میں مبتلا کر سکتی ہے۔ دوران حمل متوازن غذا کا استعمال اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اپ کو صحت مند وزن کے حصول، بچے کی نشونما میں سہارا، پیدائش کے وقت صحت مند وزن ،اور ،بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔

حاملہ خاتون غذا میں کن باتوں خیال رکھیں

اس حوالے سے اسسٹنٹ پروفیسر ماہر غذائیت بشریٰ خلیل کہتی ہیں کہ حاملہ خواتین کو دو اہم باتیں اپنے ذہن میں یاد رکھنی چاہیے۔ نمبر ایک روزانہ کم نمک استعمال کرے اور نمک کی مقدار کو پانچ گرام یا چائے کے ایک چمچ تک ہی محدود رکھیں۔ ڈبے والے کھانے یا پروسیس شدہ خوراک سے اپنے آپ کو بچا کے رکھے۔ نمبر دو اضافی شکر اور ٹوسٹربی والے کھانے کا انتخاب کم کرے جیسے تلے ہوئے کھانے فوری تیار ہونے والے نوڈلز، آئس کریم ،کینڈی، بسکٹ، میوے ، ڈرنکس یا سوڈا اور پھلوں کے مشروبات کیونکہ ان کھانوں میں کینڈری زیادہ ہوتی ہے لیکن غذائی اجزاء کم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض غذا سے حمل کے دوران پرہیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں مخصوص بیکٹیریا یا پیراسائٹس کا خطرہ ہوتا ہے۔ انفیکشن اپ کے بچے کے لیے سنگین پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے اور حمل ضائع ہونے کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ ان بیکٹیریا اور پیراسائٹ سے اسانی سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر اپنے کھانوں کو اچھی طرح سے پکائیں کچا اور ادھورا پکا ہوا گوشت کا استعمال بالکل کم کر دے تو اس کے ذریعے یہ پیراسائٹ اپنے کھانوں سے ختم کر سکتے ہیں اس کے علاوہ حاملہ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے اور بار بار پانی پیئں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button