باڑہ کے صحافیوں کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں ملنے لگی
شاہ نواز آفریدی
ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ میں گزشتہ روز چند ایک صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں باڑہ بازار میں ایک ہوٹل کے بارے انکشافات کئے گئے تھے تاہم اس میں ہوٹل کا نام وغیرہ نہیں بتایا گیا تھا۔ جس کے بعد باڑہ کے چند ایک سیاسی جماعت کے چند نوجوان باڑہ کے صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹس شیئر کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کمنٹس میں صحافیوں کو مارنے سمیت سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئی۔ صحافیوں کو مختلف القابات سے پکارا جانے لگا تاہم دوسری جانب صحافیوں میں بھی چند نے ان کے خلاف بیان بازی کی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باڑہ کے تقریباً تمام لوگ بشمول تمام صحافی بھی آئی ڈی پیز بنے۔ اور اپنے گھر بار چھوڑنے کے بعد جب 7 یا 8 سال بعد واپس آئے تو دیگر تمام سیکٹرز کی طرح صحافی اور پریس کلب کا بھی برا حال تھا جس کے لیے صحافیوں نے جیب سے رقم خرچ کرکے پریس کلب میں پانی، بجلی اور رنگ و روغن سمیت کرسیاں، میزیں اور کچن وغیرہ کا سامان خریدا۔ تاہم بعد ازاں اس وقت کے منتخب ایم این اے اقبال آفریدی، دیگر مختلف سیاسی و سماجی لوگوں اور سماجی تنظیموں نے بھی اس کی مرمت و تزئین میں بڑا کردار ادا کیا۔
اب آتے ہیں صحافیوں کے صحافتی خدمات اور ان کو درپیش پیشہ ورانہ چیلنجز اور نجی مسائل کے بارے میں۔ باڑہ کے صحافیوں میں دو صحافی اپنے پیشہ ورانہ کام کے دوران بم دھماکوں میں شہید ہو چکے ہیں جبکہ دو اس کام سے وابستگی کے دوران وفات پا چکے ہیں جن کے ورثاء یا بچوں کی بھی تاحال حکومت کی جانب سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ باڑہ پریس کلب میں اس وقت 24 مستقل ممبران ہیں جبکہ دیگر درجن بھر ہیں جو مستقل ممبران تو نہیں ہے مگر پریس کلب کے ساتھ وابستہ ہیں اور پریس کلب کی جانب سے حالیہ اعلان شدہ نئی ممبر شپ کے لیے فارمز وغیرہ وصول کر کے پریس کلب کے آئین کے مطابق مستقل ممبر شپ کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
باڑہ میں آئی ڈی پیز کی 2015 میں باقاعدہ طور پر مرحلہ وار واپسی شروع ہوئی۔ باڑہ کے لوگ یکم ستمبر 2009 بمطابق 8 رمضان المبارک میں یہاں سے بے دخل کر دیئے گئے تھے۔ اس میں باڑہ کے تقریباً تمام تر عوام بشمول مقامی صحافی تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ تک خاندان تھے جو یہاں کے باشندے ہیں۔ واپسی کے بعد تمام عوام بشمول صحافیوں کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں بہت سے مسائل تاحال موجود ہیں۔سابقہ فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد ٹرانزیشن میں بھی بہت سے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور تاحال بھی پڑ رہا ہے۔ اس کے بارے آگے چل کر نشان دہی ہو جائے گی۔
ان مسائل میں باڑہ کے صحافیوں نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے ان کو اعلیٰ حکام تک پہنچایا ہے اور ملک کے اعلیٰ ایوانوں سے منتخب نمائندے مجبوراً یا دیگر وجوہات کی بناہ پر ان کے حل میں لگ گئے اور بہت سے مسائل کسی حد تک حل کئے گئے۔ جبکہ دیگر کو ری گنائز کرکے اس پر کام کیا جارہا ہے اور بہت سے تاحال باقی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ ضلع خیبر بالخصوص تحصیل باڑہ میں واپسی کے بعد تمام علاقوں میں پینے کے پانی کے مسائل تھے۔ تباہ شدہ ذاتی گھر، تعلیمی ادارے ، ہسپتال، مارکیٹیں، کھیت، دکانیں، سڑکیں، کچے راستے اور دیگر روزگار تقریباً مکمل طور پر ختم ہوا جس پر باڑہ کے صحافیوں نے تباہ شدہ مکانات کے سرویز اور رقم دینے میں تاخیر پر باڑہ باجر برادری اور علاقے میں سماجی خدمت کی۔ "آفریدی ریلیف کمیٹی” کے ساتھ ملکر آواز اٹھائی اور تباہ شدہ مکانات کے سرویز اور حکومت کی جانب سے رقم جاری کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
باڑہ میں واپسی کے بعد تقریباً 90 فیصد سے زائد تعلیمی اداروں کی عمارتیں تباہ تھی، ہسپتال، سڑکیں، پلیں اور دیگر املاک بھی تباہ ہوئی تو انہیں صحافیوں نے ہسپتال بالخصوص ڈوگرہ کا ٹائپ ڈی کیٹیگری کے ہسپتال پر درجنوں سٹوریز کی جس سے اس کے مسائل قدرے کم ہوئے۔
باڑہ بازار کی آباد کاری، بالخصوص بازار میں پانی کی دستیابی کے لئے رپورٹنگ اور ضلع پشاور میں ملحقہ بٹہ تل بازار کی منتقلی اور وہاں پر پشاور پولیس کی جانب سے مقامی تاجروں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بھی رپورٹنگ کرتے رہے۔
قبیلہ شلوبر میں بیسئ بابا پہاڑی پر سابقہ کرش پلانٹ انڈسٹری پر قبیلے کے لوگوں نے کئی دفعہ احتجاج کیا تو بھی باڑہ کے صحافیوں نے اس پر رپورٹنگ کی۔ اس سے بڑھ کر جب بیسئ بابا کے پہاڑی پر ریسٹورنٹ بنانے کے لیے اس وقت کی پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے وزٹ کے لیے وفد بھیجا اور مبینہ پی سی ون تیار کیا تو قبیلہ شلوبر کے ساتھ تمام آفریدی اقوام نے لبیک کہتے ہوئے سخت ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں کئی روز و شب پاک افغان شاہراں پر احتجاجی کیمپ لگایا کہ اس ریسٹورنٹ سے ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوتی ہے تو بھی باڑہ پریس کلب کے صحافیوں دن رات احتجاج کی کوریج کی۔
اسی طرح ماہ اگست کی سخت گرمیوں میں باڑہ کے عرفان نامی ایک معلم کو مبینہ طور پر قتل کرکے باڑہ کے عوام نے پہلے اس کی لاش رکھ کر احتجاج شروع کیا جو تقریباً 26 دن تک جاری رہا جس میں ملک کے تمام بڑے پارٹیوں کے رہنما اور مقامی منتخب نمائندے بھی شریک رہے۔ اس میں بھی باڑه کے صحافیوں نے بغیر کسی ذاتی لالچ مکمل طور پر ڈیوٹی دی جس پر بعد میں اس کے اعتراف میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر الحاج شمس الدین آفریدی نے پریس کلب کے صحافیوں کو 20 ہزار روپے بطور انعام دیے۔ اس کے بعد باڑہ بازار خیبر چوک ہی میں پشاور عربی تھانے کے حوالات میں مبینہ خود کشی کرنے والے 23 سالہ شاہ زیب کے حق میں احتجاج، قبیلہ بر قمبر خیل سے تعلق رکھنے والے محنت کش لڑکے بلال آفریدی کی تختہ بیگ میں شہادت، اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملک دین خیل کے علاقے موخہ ڈھنڈ کے قریب شہید کئے گئے غالباً نصیر نامی لڑکے، تیراہ میں شہید کئے گئے ٹیلر ماسٹر اورنگزیب کے قتل کے خلاف احتجاج، اکاخیل میں گولی کی زد میں آکر راہ گیر کے لئے احتجاج سمیت درجنوں دیگر احتجاج میں بھی باڑه کے صحافیوں نے بغیر کسی ذاتی مفاد کے علاقے کی مفاد اور اپنی اخلاقی ڈیوٹی کو سرانجام دیتے ہوئے ان تمام کی کوریج کی۔
باڑہ سیاسی اتحاد کے صدر شاہ فیصل آفریدی و جنرل سیکرٹری زاہد اللہ سمیت تمام اتحاد کے زیر انتظام دو دفعہ سخت ترین گرمیوں میں امن مارچ کی بھی صحافیوں نے کوریج کی۔ اس میں میں دو صحافی گرمی سے بے ہوش ہوکر ہسپتال پہنچے جبکہ ایک سے قیمتی موبائل چوری ہوا مگر پھر بھی بغیر معاوضے کے کوریج کی۔ اسی طرح تیراہ آمن مارچ میں باڑہ کے صحافیوں نے ذاتی گاڑی رقم خرچ کرکے لاکھوں روپے مالیت کا نقصان اٹھا کر بغیر کسی معاوضے کی تیراہ آمن مارچ و جلسہ کی مکمل کوریج کی۔
تین سالہ یحییٰ شہید جو ایک فٹ کھلے اور 280 فٹ گہرے کنویں میں گرگیا تھا سخت سردی میں اس کی نعش کو نکالنے کے لئے دن رات جاری ایک ماہ تک آپریشن میں صحافی بلا معاوضہ دن رات رپورٹنگ کرتے رہے اور یہاں تک کہ باڑہ کے صحافی گھروں سے چائے وغیرہ بھی لاتے رہے اور اپنی جیب سے بھی مدد کرتے رہے۔ اس سانحے پر پورے صوبے سمیت ملک اور بیرون ملک میں مقیم افراد بھی ذہنی طور متاثر ہوئے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد نے یہاں کا دورہِ بھی کیا۔
باڑہ بازار میں گھریلو بجلی کی بندش کے موقع پر کئی دفعہ بجلی گرڈ اسٹیشن اور خیبر چوک میں احتجاجی دھرنے اور کیمپس لگائے گئے جس کی مسلسل بارش میں بھی باڑه کے صحافیوں نے کوریج اور معاوضے میں بھی کچھ نہیں ملا۔
باڑہ میں آئی ڈی پیز کی واپسی کے بعد اور بالخصوص فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد بہت سے مسائل کی نشاندہی اور اس کے حل کے حوالے سے ضلع خیبر بالخصوص باڑہ کے صحافیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ بازار میں کھلے گٹر، مین ہول، گندگی اور تجاوزات سمیت کاروباریوں کے کاموں کو بھی، پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کے پروگرامات، گورنمنٹ ڈگری کالج کوہی شیر حیدر، ڈوگرہ ٹیکنیکل کالج اور تقریباً تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں طلباء و طالبات کے مسائل اجاگر کرنے میں اب بھی مذکورہ صحافی بغیر معاوضے کے کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان صحافیوں کی باقاعدہ تنخواہیں یا تو ہوتی ہی نہیں یا بعض کی کام کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہیں تو ایسے حالات میں علاقے کے عوام کو بھی انہین کا ساتھ دینا چاہئے بجائے اس کے ان کو سوشل میڈیا پر گالیاں دینے لگے اور ان کو مارنے، زدو کوب کرنے اور قتل کرنے کی دھمکیاں دے۔ گزشتہ روز بھی باڑه بازار میں ایک صحافی کو پیشہ ورانہ کام کرتے ہوئے پولیس نے دبوچ کر حوالات مںنتقل کیا بعد ازاں چھوڑ دیا۔ باڑہ کے صحافیوں نے مشکلات کے باوجود عوام کی مشکلات کو اجاگر کیا ہے انکے ساتھ ایسا سلوک قابل مذمت ہے۔
ان تمام باتوں میں اہم یہ بھی ہے کہ اگر علاقے کے سیاسی، سماجی، کاروباری لوگ، افسران اور منتخب افراد سمیت جنرل پبلک ان صحافیوں کے ساتھ تعاون نہ کرے تو نہ صرف علاقے کی ترقی پر اثر پڑے گا بلکہ یہاں کے مسائل کو اجاگر کرنے کی آواز بھی دھب جائے گی جس سے ایک ترقی یافتہ توازن والے معاشرے کا خواب صرف خواب ہی رہے گا۔ کسی بھی غلطی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔