رمضان کی آمد کے ساتھ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ
رعناز
رمضان کی آمد آمد ہے۔ یہ مہینہ برکتوں اور عبادتوں کا مہینہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس مہینے کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ جدھر لوگ رمضان کے مہینے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ادھر کچھ لوگ خوفزدہ اور پریشان بھی ہو جاتے ہیں۔ ابھی آپ لوگوں کے ذہن میں یقینا یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہ رمضان جیسا بابرکت مہینہ خوف اور پریشانی کا سبب کیسے بن سکتا ہے؟
جیسے ہی رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو مہنگائی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر چیز کی قیمت میں دگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ سبزی ہو یا گوشت چاہے وہ پھل ہو یا دودھ۔ غرض ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کی قیمت میں دگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر ایک چیز کی قیمت آسمان کو چھوتی ہے۔
پھل تو دور کی بات سبزی کی قیمت تک رسائی بھی ایک غریب انسان کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے۔ تو اس لحاظ سے غریب طبقے کے لیے رمضان کا مہینہ کسی حد تک پریشانی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
رمضان جیسے بابرکت مہینے میں خواہ امیر ہو یا غریب سب کا دل کرتا ہے کہ افطاری کے وقت ان کے دسترخوان پر سب کچھ موجود ہو۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ اچھے کھانوں سے روزہ افطار کرے۔ اچھے کھانوں سے لطف اندوز ہو۔ اپنی اچھی صحت برقرار رکھنے کے لیے پھلوں کا استعمال کرے۔ خود کھانے کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کی بھی مدد کرے۔ ان کا روزہ بھی اچھی چیزوں سے افطار کروائیں مگر یہ ساری خواہشات تب مٹی تلے دفن ہو جاتی ہے جب بازاروں میں رمضان کے لیے نیا نرخ نامہ لگا دیا جاتا ہے۔ وہ صرف نرخ نامہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک غریب آدمی کے لیے ایک زوردار دھچکا ہوتا ہے۔
دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو رمضان کے مہینے میں زیادہ تر لوگوں کے کام اور کاروبار رک جاتے ہیں۔ وہ ویسا نہیں کما پاتے جیسا کہ وہ عام دنوں میں کماتے ہوتے جیسا کہ اگر ہم ایک غریب رکشے والے کی مثال لے لیں۔ اگر وہ عام دنوں میں ایک ہزار روپے ایک دن کے کماتا ہے تو رمضان میں وہ پانچ سو روپے بھی نہیں کما سکتا کیونکہ زیادہ تر لوگ روزے کی حالت میں گھر سے باہر جانا کم یا بالکل ختم کر دیتے ہیں۔ صرف وہی لوگ باہر نکلتے ہیں جن کی مجبوری ہوتی ہے مثلا نوکری پر جانا وغیرہ۔ اس وجہ سے رمضان کے دوران آمدو رفت کافی کم ہو جاتی ہے تو ایسی حالات میں ایک غریب رکشے والا کیا کمائے گا؟ کیسے وہ گھر کے خرچے پورے کرے گا؟ اوپر سے اگر ایک چیز اتنی مہنگی ہو جائے تو پھر تو وہ غریب گوشت تو کیا افطاری کے لیے سبزی بھی نہیں لے پائے گا۔
رمضان کے مہینے میں یہ حالات صرف ایک رکشے والے کی نہیں ہوتی بلکہ ہر اس غریب کی ہوتی ہے جس کی آمدن بہت زیادہ کم ہوتی ہے۔ غریب طبقہ پہلے ہی مہنگائی کی لہر میں ڈوب چکا ہے اور یہ رمضان کا نرخ نامہ ان کے کندھوں پر ایک اور بوجھ کی مانند ہوتا ہے جس کو اٹھانا ان کے لیے کافی مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے رمضان کے مہینے سے وہ خوفزدہ اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہی فکر لگی رہتی ہے کہ یہ خرچے پورے کرے تو آخر کرے کیسے؟
دراصل وہ رمضان کے مہینے سے نہیں بلکہ بڑھائے گئے نرخ ناموں سے فکر مند ہو جاتے ہیں اس لئے نرخ نامہ بڑھانے والوں کو نرخ بڑھاتے وقت تھوڑا سا غریب عوام کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ بڑی ہوئی قیمتوں کے نرخنامے کی بجائے رمضان سپیشل افر کے بینر زلگانے چاہیے جس میں چیزوں کی قیمتیں کم کر دی گئی ہو نہ کہ زیادہ کیونکہ وہ غریب بھی ایک انسان ہے۔ انہیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اچھا کھائے پیے۔ رمضان جیسے بابرکت مہینے کو خوشی سے گزارے نہ کہ پریشانی اور خوف میں۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایک ایگرام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔