سال کا ایک نہیں ہر دن خواتین کے نام
انیلا نایاب
آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ خواتین کا عالمی دن منائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس دن عالمی سطح پر خواتین کے حقوق اور تحفظات کے لیے اواز اٹھائی جاتی ہے اور خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دلانے کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں خواتین کو مختلف مسائل درپیش ہیں جن کو حل کرنے کے لیے مختلف ادارے کام کررہے ہیں۔ سال میں ایک دن خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جو کہ میرے خیال میں خواتین کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔
ہم اپنے ارد گرد کے ماحول اور خاص طور پر اپنے گھر میں دیکھیں تو صبح انکھ کھولتے ہی ہمارا واسطہ ہماری ماں سے بہن سے، دادی سے، بھابی سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسی طرح سارا دن صبح سے شام تک یعنی ہمارے دن کا اغاز اور دن کا اختتام ہی ایک خاتون سے ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ معاشرہ مردوں کا ہے لیکن میرے خیال میں یہ معاشرہ خواتین سے ہی بنتا ہے۔ ایک خاتون اچھی ماں اچھی بیوی، اچھی بہن، اچھی بھابی اچھی نند اسی طرح ہر کردار بخوبی نبھاتی ہے۔ عورت ماں بہن بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے مرد کی زندگی کو سنوارتی ہے۔ ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور ایک کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
فرانس کے ایک کامیاب حکمران کے الفاظ ہیں مجھے اچھی مائیں دے دو میں پوری دنیا فتح کر کے دکھاؤں گا۔ ماں کے روپ میں ایک پاکیزہ اور پیار بھرا رشتہ ہے۔ عورت ماں کے روپ میں جنت ہے۔ بیٹی کے روپ میں رحمت اور سراپہ دعا ہے۔ بیوی کی شکل میں وفا ہے۔ خالہ کے روپ میں ہے تو ماں کی طرح محبت نچھاور کرنے والی، پھوپھی ہے تو بھائی کے بچوں پر صدقہ وارنے والی۔ بہو ہے تو گھر کی زینت، بابی کے روپ میں گھر کا سنگھار۔
گھر کے مرد اور خواتین مختلف دفاتر اور افسز میں کام کرتے ہیں۔ دونوں ایک ہی طرح کام کر کے جب گھر اتے ہیں تو مرد ارام کرنے کے لیے بیڈ روم چلا جاتا ہے جب کہ خاتون کچن میں چلی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کی ذمہ داری ہے۔ باہر کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ گھر کی ذمہ داریاں بھی بخوبی انجام دیتی ہیں۔
میں نے خود اپنے گھر میں ماں کو صبح سے رات دیر تک کام کرتے دیکھا ہے اور ایک عورت ہونے کے ناطے میں نے کبھی ان سے نہیں پوچھا تھا کہ ماں کیا اپ تھک چکی ہے۔ کیونکہ پورے معاشرے کی طرح میری بھی یہی سوچ تھی کہ یہ تو میری ماں کی ذمہ داری ہے۔ اب میں سوچتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ماں اولاد کے لیے کتنا بوجھ برداشت کرتی ہیں اور یہ انکو بھی آرام دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔