خواجہ سراؤں کو باعزت مقام نہ ملنے سے پیدا ہونے والا ایک اہم مسئلہ
ڈاکٹر مریم نورین
"جب مجھے علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نامکمل وجود کے ساتھ پیدا کیا ہے تو مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ کیا کیا خواب نہیں دیکھے تھے زندگی میں ، کیا کیا سپنے نہیں بنے تھے ، مستقبل کے لئے کیا کیا منصوبے نہیں بنائے تھے ، سب کچھ دھڑام سے زمین بوس ہوگیا اور کرچیاں میرے دل میں چبھنے لگی ”
یہ الفاظ تھے اسماعیل (فرضی نام) کے، جسے عرصہ بعد پتا چلا کہ وہ خواجہ سرا ہے اور بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں ( ٹرانسجینڈر) کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان سے قطع تعلقی خواجہ سراؤں کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ لوگ ان کو ایسا محسوس کرواتے ہیں کہ جیسے یہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وجوہات ہیں جو حقیقت میں کسی بھی معاشرے میں مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں ایسی خبریں اور واقعات سننے اور دیکھنے میں آتے ہیں کہ بعض خواجہ سرا(ٹرانسجینڈر) اپنی شناخت چھپا کر رکھتے ہیں، تاکہ وہ بھی ایک اچھی اور باعزت زندگی گزار سکیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ضلع مردان کے مضافات میں سامنے آیا کہ ایک خواجہ سرا نے ایک باعزت زندگی گزارنے کے سبب نہ صرف دنیا والوں سے بلکہ اپنے گھروالوں سے بھی یہ بات چھپا کر رکھی کہ ایک نارمل مرد والی خاصیت نہیں ہے ان میں۔ ایک بہترین عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اگر وہ شادی کے لیے نہیں مان رہا تو کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ لیکن آخرکار گھروالوں کے اصرار پر شادی کے لیے راضی ہونا پڑا۔
” جب اسماعیل کی طرف سے میرے رشتے کا پیغام آیا اور گھر والوں کو لڑکے کی جاب، عہدہ اور خاموشی سب باتیں پسند آئی تو منگنی کے ساتھ ہی نکاح بھی ہوا اور پھر رخصتی بھی تھوڑے ہی عرصے میں ہوگئی۔ رخصتی کے بعد جو حقائق معلوم ہوئے تو یوں لگا جیسے زمین اور آسمان ایک ہوگئے ہوں مجھ پر۔ ”
یہ وہ درد بھرے الفاظ تھے نجمہ(فرضی نام) کے جن کی شادی اسماعیل سے ہوئی تھی۔ نجمہ اور اسماعیل دونوں کا تعلق ضلع مردان سے ہیں اور دونوں ہی اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔
نجمہ ایک سوال کے جواب میں بتاتی ہیں کہ: "جب رخصتی ہوئی اورحقیقت معلوم ہوئی تو الگ کمروں میں رہنے لگے، میاں بیوی کے باہمی تعلقات قائم ہی نہ ہو پائے۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن اس گھر میں موجود افراد سے شرمندگی رہتی، اصل وجہ ان کے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے سب کی نظریں ہزار سوالات کرتی کہ ایسی کون سی ناراضگی ہے یا بڑی بات ہے کہ الگ کمروں میں رہ رہے ہیں؟ ان کے گھر پہ سب کا رویہ مجھ سے بہترین تھا۔خیال رکھنے والے تھے اور میں اپنی مرضی سے ہر کام کرتی اور اپنی جاب پر جاتی، لیکن باوجود اس کے اس حقیقت سے مجھے ڈپریشن کی شکایت شروع ہوئی۔ ذہنی دباؤ کی وجہ سے چڑچڑاپن پیدا ہوا۔ ”
نجمہ سے بات چیت کرتے وقت ان پر گزرے حالات کی سختی اور اس دورانیہ میں ذہنی دباؤ کے اثرات بخوبی محسوس ہورہے تھے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو بظاہر نجمہ کے ساتھ زیادتی ہوئی تاہم اگر زیادتی ہوئی بھی تواس کی ذمہ دار ہمارا اپنا ہی معاشرہ ہےجو ایسے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان پر اچھی زندگی گزارنے کے سارے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ طنزیہ اور تحقیر آمیز رویے ہی ان کو اپنی شناخت چھپانے پر مجبور کرتے ہیں اور نتیجتاً معاشرے میں ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔
"نجمہ کے مطابق تین ماہ تک ان کے ساتھ یہ رشتہ بظاہر قائم رہا،اور تین ماہ کے عرصے میں سب سے مشکل مرحلہ اس حقیقت سے متعلق اپنی فیملی کو آگاہ کرنا تھا،جس دن ان کو بتانے میں کامیاب ہوئی وہ دن بھی والدین کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا۔ اپنی بیٹی کو بمشکل شادی کے لیے راضی کرنا اور پھر ایسی قسمت کہ شادی کرکے بھی گھر نہ بسنا۔یہ مرحلہ والدین کے لیے انتہائی سخت ہوتا ہے۔ بنابریں تین ماہ بعد اپنے والدین کے گھر مہر اور اپنا سارا جہیز کا سامان لے کر آئی۔”
نجمہ مزید بتاتی ہے کہ: ” اسماعیل کوئی برا انسان نہیں تھا ، نہ ہی مجھے کسی قسم کی اذیت دینا ان کا مقصود تھا۔ اچھے طریقے سے رہا اور جب تقاضا کیا علیحدگی کا تو بھی احسن طریقے سے شریعت کے اصولوں کے مطابق مہرادا کیا۔ مہر کے لازم ہونے کے لیے خلوتِ صحیحہ کا حکم ہے اور چونکہ خلوتِ صحیحہ ہوا تھا تو بطورِ مہر جتنا سونا ملا تھا شادی پر وہ میرے حوالے کیا گیا۔ حالانکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ جب نکاح ہی صحیح نہیں تو کیسا مہر ؟ کیسا خلوتِ صحیحہ؟ کیونکہ ان کے باقی گھر والے مہر کی ادائیگی کے حق میں نہیں تھے۔”
اسماعیل نے یہ بات واضح کی کہ” اس دوران صرف ’’نجمہ‘‘ ہی ذہنی اذیت کا شکار نہیں رہی بلکہ خود میں بھی ذہنی دباؤ میں مبتلاء رہا۔ معاشرہ اور اپنے گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ نجمہ کے خاندان کا سامنا کرنا بہت مشکل مرحلہ رہا۔گھر میں چھپ کرنہیں بیٹھا۔ ہمت نہیں ہاری ، نہ ہی خودکشی کی طرف گیا، نہ کوئی اور ایسی دوائی استعمال کی کہ حالات سے فرار حاصل کروں۔ صبر و برداشت سے ان حالات کا مقابلہ کیا، اور الحمد للہ ان حالات سے بطریقہ احسن نکلنے میں کامیابی ہوا اور زندگی کا پہیہ چل رہا ہے۔”
یہاں اگر غور کیا جائے تواسماعیل نے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی جو ایک نارمل انسان کرسکتا تھا پر وہ نہ کرسکا ۔ وہ اس معاشرے کے ظالمانہ طور طریقوں کو نہ بدل سکا۔ پھر بھی اس نے بہت سے نام نہاد مردوں سے زیادہ مردانگی دکھائی۔ اپنا پورا حق مہر واپس کردیا اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا ، گھریلو تشدد کا سہارا نہیں لیا، نہ ہی کوئی اور غیر انسانی ہتھکنڈہ استعمال کیا۔
مذکورہ مسئلے سے واضح ہوتا ہے کہ اس قسم کے مسائل کا ذمہ دار ہمارا اپنا معاشرہ ہی ہے جو ان کو کوئی اچھا مقام اور بطور انسان کوئی حقوق دینے سے قاصر ہے۔ اور لوگوں کے رویے اور سلوک مزید زندگی ان پہ تنگ کردیتی ہے۔ خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق اور مرتبہ ملنا چاہیے، ان کے بارے میں ہمارے معاشرے کا برتاؤ بدلنا چاہیے جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم نوجوانوں، طلبہ ، بچوں، اساتذہ، والدین اور مذہبی رہنماؤں کا شعور وآگاہی مزید بڑھانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ تاکہ ہمارا معاشرہ سب انسانوں کے لیے بلاتفریق رنگ و نسل، صنف و عقیدہ یکساں طور پر رہنے کا قابل ہو سکے۔