جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتوں کا انجام
سعدیہ بی بی
اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ دنیا کی سب سے زیادہ نازک، عارضی اور ناقابل اعتبار شے کون سی ہے تو میرا جواب ہوگا انسانی تعلقات یا انسانی رشتے۔ آپ کو یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی نہیں ملے گی لیکن اگر آپ کتاب زیست پڑھیں تو اس میں انسانی تعلقات اور رشتوں کی بے شمار کہانیاں ملیں گی۔ بلا شبہ نہ زندگی کا اعتبار ہے اور نہ ہی انسان کا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ زندگی اور انسان سے وابستہ ہر شے ( عارضی اور ) بے اعتبار ہو سکتی ہے۔
اکثر اوقات ہمیں بہت سے مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے جھوٹ بولنا پڑ جاتا ہے۔ وہ اس بنیاد پر کہ مسئلے کا حل نکل سکتا ہے تو دوسری طرف خود کے عیب چھپانے کے لیے بھی بہت سے جھوٹ بولنے پڑ جاتے ہیں تاکہ دوسروں کو ہم ہر طرح سے پرفیکٹ نظر ائے اور اسی طرح ہم خود کو اچھا بنانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جاتے ہیں اور ایک ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے باہر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
بعض اوقات دولت کی لالچ میں آکر جھوٹ بول کر رشتے جوڑ دیے جاتے ہیں جس سے پہلے تو فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے لیکن سچ سامنے انے کے بعد وہی رشتہ اس قدر کھوکھلا ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد ٹوٹنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میرے علاقے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ عبداللہ نے پسند کی شادی کی تھی، ایک سال ہنسی خوشی گزر گیا ان کا چند ماہ کا ایک بیٹا بھی تھا لیکن اہستہ اہستہ رشتے میں دوریاں بڑھتی جا رہی تھی۔ ساس کو اپنی بہو کھٹکنے لگی اور بہو کے خلاف بیٹے کے کان بھرنے شروع کر دیے۔گھر میں روز لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔ عبداللہ نے اپنی امی کو بولا کہ وہ اس رشتے سے بہت تنگ آگیا ہے وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ ساس نے اپنی بہو پر جھوٹے الزامات لگوا دیے کہ یہ لڑکوں سے ملنے جاتی ہے۔ اس بات پر عبداللہ نے کچھ سوچے سمجھے بغیر طلاق دے دی اور گھر سے نکال دیا۔ چند ماہ کا بیٹا بھی چھین لیا اس کو ساتھ لے جانے نہ دیا۔
اب یہ بات سننے میں ائی ہے کہ عبداللہ بیوی کے ہوتے ہوئے بھی اس کی سہیلی کو پسند کرنے لگا تھا اور یہ بات اس نے اپنی امی کو بول دی تھی۔ اب راستہ بالکل صاف تھا وہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر یہ رشتہ قائم نہ ہو سکا۔ عبداللہ کی امی نے اس کے لیے لڑکی دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ بچہ ابھی بہت چھوٹا تھا اس کو ماں کی ضرورت تھی۔ عبداللہ کی خالہ نے ایک لڑکی کا رشتہ بتایا کہ لڑکی پڑھی لکھی امیر باپ کی ایک اکلوتی بیٹی ہے۔ رشتے کی بات چلائی گئی اور لڑکی والوں کو بولا گیا کہ اس بچے کی ماں فوت ہو چکی ہے اور یہ بہت چھوٹا ہے اس کو ماں کی ضرورت ہے۔ اس رشتے کو جوڑنے کے لیے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے اور بہت سے جھوٹ بولے گئے کیونکہ لڑکی بہت امیر تھی اور عبداللہ کی امی اس رشتے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔
لڑکی والوں کو بچے پر ترس ایا اور انہوں نے رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ شادی کی تیاریاں شروع ہوئی۔ یہاں شادی ہوئی اور وہاں شادی کے چند دن بعد ایک ایک جھوٹ کھل کر سامنے انے لگا۔ محلے کی چند خواتین نے عبداللہ کی بیوی کو ان کے کرتوت بتا دیے۔ یہ سنتے ہی لڑکی نے اپنے باپ کو بلا لیا اور سارا مسئلہ ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ لڑکی والے تو بہت بڑے لوگ تھے انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اور اس دھوکے پر عبداللہ اور اس کے باپ کو پولیس بلوا کر جیل بھیج دیا ۔ انہوں نے بولا کہ ہم نے اس معصوم بچے کی خاطر اپ لوگوں کا اعتبار کیا اور اپنی بیٹی کا ہاتھ اپ لوگوں کو دیا لیکن اپ نے اتنا بڑا جھوٹ بولا دھوکہ دیا۔
اب یہاں صاف صاف پتہ چل رہا ہے کہ رشتہ لالچ میں آ کر جوڑا گیا اور اس رشتے کو جوڑنے کے لیے انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا اور کتنے لوگوں کی زندگیاں برباد کر دی۔ عبداللہ کی ماں کے بولے گئے جھوٹ نے اج سب کی زندگیاں برباد کر دی۔ بیٹا اور شوہر جیل میں ہیں اور وہ اسی بچے کے ساتھ اکیلی رہ گئیں ہیں۔ بے شک جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔ اپ کتنے بھی جھوٹ بول رہے ہیں ایک نہ ایک دن وہ اپ کے سامنے آکر کھڑے ہو جائیں گے پھر اپ جتنا بھی سچ بولیں سب اسے جھوٹ ہی تصور کریں گے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے اتی ہے ، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے ، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوت۔ ایسے شخص پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو ختم کر چکا ہوتا ہے۔
رشتہ کبھی بھی جھوٹ کی بنیاد پر قائم نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ایک نہیں کئی زندگیاں برباد ہوتی ہیں۔ جھوٹ بولنا دنیا اور اخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ جھوٹ سے انہوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہے اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔