بلاگزسیاست

جلسہ گاہ اور پرجوش کارکنان

حمیرا علیم

پاکستان میں ہر طرف الیکشن کی گہماگہمی ہے۔ ہر سیاسی جماعت جوش و خروش سے جلسے منعقد کر رہی ہے پاور شو کر رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھی کسی ٹی وی چینل کے پروگرامز دیکھیں یا اپنے اردگرد کے لوگوں سے بات کریں تو ہر شخص کی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے دلی وابستگی ہے اور باقی سب سے نفرت۔ مگر ہر پارٹی کے جلسے میں ایسے لگتا ہے سارا شہر ہی امڈ آیا ہے۔ کئی سال پہلے اس راز سے بھی آگاہی ہو ہی گئی کہ ایسا کیسے ممکن ہوتا ہے۔

مشرف دور میں میں گورنمنٹ جاب کر رہی تھی۔ ریفرنڈم سے پہلے پاور شو کے لیے مشرف نے لیاقت باغ میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور مشرف صاحب نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ عوام خصوصا خواتین کے مقبول ترین شخص ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس جلسے میں تمام یو سیز کو ہدایت تھی کہ اپنے علاقے کی خواتین کو لائیں۔ اس کے علاوہ ایجوکیشن ، ہیلتھ اور چند اور ڈیپارٹمنٹس کی خواتین کو ان کے ورک پلیس سے گاڑیوں میں بھر کر ایسے لایا گیا کہ سوائے آئی ڈی کارڈ کے ان کے پاس کچھ نہیں تھا حتی کہ پانی کی بوتل اور والٹ تک کی اجازت نہیں تھی۔ ایک بار مکمل چیکنگ کے بعد ہمیں لیاقت باغ میں داخل کرنے کے بعد باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ شدید گرمی میں ہم صبح دس بجے پنڈال میں پہنچے نہ پانی کا انتظام تھا نہ ہی کھانے کا۔

کئی گھریلو خواتین پریشان تھیں کہ بچے اکیلے چھوڑ کر آئی تھیں۔ مشرف صاحب کی سیکورٹی کے پیش نظر آس پاس کا سارا علاقہ خالی کروا کر ہر چھت پر اسنائپرز تعینات کر دئیے گئے تھے۔ شام کے قریب ان کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے آمد ہوئی انہوں نے تقریر شروع کی تو ہماری ایک کولیگ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ انہیں لے جا کر وہاں موجود ڈاکٹرز کی ٹیم کو دکھایا تو انہوں نے کہا ہاسپٹل لے جائیے۔ بڑی مشکل سے گیٹ پر موجود آرمی والوں کو ڈاکٹر نے قائل کیا یوں ہم چند کولیگز باہر نکلے۔ لیاقت باغ سے کمیٹی چوک تک کوئی سواری نہیں ملی۔ ہم نے سوچا شاید کسی گلی میں کوئی ٹیکسی رکشہ مل جائے گا چنانچہ کمیٹی چوک سے ڈھوک کھبہ کی طرف گئے۔ خوش قسمتی سے ایک ٹیکسی مل گئی اسے مجبوری بتا کر سینٹر ہاسپٹل تک پہنچے۔ وہاں سے گھر فون کیا اور پیسے منگوا کر کرایہ ادا کیا۔ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان کی جان رات گئے ہی چھوٹ سکی تھی۔

دوسرا تجربہ اسی دور میں تب ہوا جب شیخ رشید نے کیریج فیکٹری کے نزدیک ایک کالج کا افتتاح کیا اور سی ایم پرویزالہی کو چیف گیسٹ کے طور پر مدعو کیا۔ سارے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے وہاں حاضری دی۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور ہمیں صبح صبح وہاں پہنچنا تھا۔ اس بار ٹرانسپورٹ بھی اپنی استعمال کرنی پڑی۔ ٹینٹس میں جا کر بیٹھے تو ٹھنڈ سے قلفی جم گئی۔ یہاں بھی پانی تک کا انتظام نہیں تھا۔ سی ایم صاحب کی شاہی سواری پہنچی اور تقریر میں اپنے نادیدہ کارناموں کی لسٹ گنوائی اور یہ جا وہ جا۔

تیسری بار جب ہمیں الیکشن کے سلسلے میں جلسے کے لیے حکم نامہ ملا تو چند خواتین نے اعتراض کیا کہ ان کے شوہر اجازت نہیں دے رہے جس پر ڈائریکٹر صاحب نے بتایا اس صورت میں انہیں ریزائن کرنا ہو گا یا انہیں ٹرمینیٹ کر دیا جائے گا۔ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق وہ بے چاریاں گھر والوں کی منت سماجت کر کے جلسہ گاہ پہنچ گئیں۔ یہ تو تھے پرانے زمانے کے ٹیکٹکس۔

چند دن پہلے ایک گروپ میں اشتہار پڑھا کہ ہمارے پاس جلسوں، ریلیز اور کارنر میٹینگز میں شرکت کے لیے مناسب ریٹس پر بندے دستیاب ہیں۔ پڑھے لکھے ، ان پڑھ نعرے بنانے اور لگانے والے ہر طرح کے بندے۔ تومعلوم ہوا کہ اب جلسوں کی رونق کا اصل راز صرف بریانی کی پلیٹ یا دو ہزار روپے ہی نہیں بلکہ ایسے سپلائرز بھی ہیں۔ کئی سال پہلے گاوں گئے تو الیکشن کے دن تھے مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کس پارٹی کے امیدوار تھے مگر پر گھر میں جا کر انہوں نے 5 ہزار روپے، چینی گھی اور آٹے کے تھیلے کے عوض ووٹ خریدنے کی پیشکش کی۔ اللہ کا شکر ہے گاوں میں تقریبا سب گھروں کے ایک آدھ فرد کا بسیرا انگلینڈ، دوبئی یا کسی مغربی ملک میں ہے اس لیے شاید ان کی آفر اتنی کامیاب نہیں رہی ہو گی۔

دوسرے ایسے علاقوں میں بھی پیر، کسی بزرگ یا کسی سیاسی چلتے پرزے کے کہنے پر ہی ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے۔اس لیے پی آر کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ میرے ماموں اور بھائی الیکشن کمپیئن ایسے کرتے ہیں جیسے انہوں نے ہی پی ایم بننا ہے۔ شاہد وہ امیدوار راتوں کو نہیں جاگتا ہوگا جسے یہ اسپورٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ دونوں صبح کے نکلے رات تین چار بجے گھر پہنچتے ہیں۔ مجھے اس وقت بے حد خوشی ہوتی ہے جس وقت وہ امیدوار بری طرح ہار جاتا ہے اور پھر ان دونوں کا سوگ چند دن ایسے جاری رہتا ہے جیسے خدانخواستہ کسی قریبی عزیز کا انتقال ہو گیا ہو۔ حالانکہ اگر وہ امیدوار غلطی سے کامیاب ہو ہی جاتا تو کوئی کام کرنا تو دور کی بات دوبارہ اپنی شکل اگلے الیکشن تک کبھی نہ دکھاتا۔

سیاستدان بظاہر توایک دوسرے کے خلاف زہریلے بیانات بھی دیتے رہتے ہیں اور تنقید بھی کرتے ہیں مگر اندرخانے یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں۔ اکثر تو اپنے بچوں کی شادیاں بھی مخالف پارٹی کے اونچے گھرانوں میں کر کے رشتے داری قائم کر لیتے ہیں۔ یہ تو عوام ہی پاگل ہے جو میاں بیوی، بہن بھائی ، والدین اولاد ان کی وجہ سے لڑتی جھگڑتی ہے اور بعض عقل کے اندھے ان کی وجہ سے ان جان لوگوں کو بحث کرتے کرتے قتل بھی کر دیتے ہیں۔ نجانے ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ سیاست دان کوئی بھی ہو پارٹی کوئی بھی ہو فائدہ صرف انہیں ہے جنہوں نے اپنے فارن اکاونٹس اورآف شور کمپنیز کی تعداد بڑھانی ہے۔ عوام غریب کے لیے تو خزانہ پچھلی حکومت نے خالی کر دیا تھا کا نعرہ، ٹیکسز کی بھرمار اور مہنگائی کے طوفان کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔

میری دعا ہے ہم کسی شخص یا پارٹی کی محبت میں اندھے ہو کر نہیں بلکہ عقل و شعور کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کریں اور پھر جیتنے والوں کا احتساب بھی۔ اگرچہ یہ خیال عبظ ہی ہے کیونکہ الیکشن توصرف ڈرامہ ہی ہوتا ہے سلیکشن تو بہت پہلے کہیں اور ہو ہی چکی ہوتی ہے۔ الیکشن کے نام پر ہماری ٹیکس منی کا ضیاع بھی ہم نے ہی بھرنا ہوتا ہے اس لیے سیاستدانوں کی بلا سے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button