کریئر کی دوڑ میں زندگی کے رنگ ختم ہوتے گئے
عیشا اسلم
کریئر ، مستقبل ، کامیابی ، آگے بڑھنا۔ ایک بار ہم اس دنیا میں قدم رکھ دے تو ایک ایک کرکے ہر چیز کو پیچھے چھوڑتے جاتے ہیں۔ ایک ایک کرکے ہر چیز کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ وقت ، دوست ، رشتے ، قریبی لوگ یہاں تک کے اپنے آپ کو بھی داؤ پر لگانا ہوتا ہے۔ کرئیر کی چاہت بلکہ نہیں کرئیر کا دباؤ ، بہت ہی زیادہ دباؤ، بڑھتا دباؤ آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے اور جان کھانا شروع کردیتا ہے۔ اتنا ہم مستقبل اپنے لیے نہیں بناتے جتنا دوسروں کی خوشی کیلئے بناتے ہیں۔ دوسروں کو یقین دلانے ، دوسروں کو خوش کرنے ، دوسروں کے طعنوں سے بچنے کیلئے ، دوسروں کے ہنسنے کے بچنے کیلئے ہم خود کو چھوڑ کر دوسروں کیلئے اپنے آپ کو پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔
افسوس کے کبھی کبھی یہ دوسرے لوگ بہت قریبی ہوتے ہیں جن کو ہم اپنا سمجھتے ہیں۔ ایک بڑی مشہور بات ہے (اپنے ہی گراتے ہے نشے من پہ بجلیاں ) کبھی پھر ان کو اپنا کہنے پر ہی ہنسی آتی ہے۔ جیت کی جنگ کو رگوں میں اتار دیا جاتا ہے کہ یا تو جیت ہے یا پھر موت۔ اس دباؤ میں ہم ذات پات کا سودا تک کردیتے ہیں کرے بھی تو کیا ؟ جو ناکام ہوئے تو ساری زندگی گھٹن اور طعنوں میں گزاردینی ہوتی ہے۔ یہ اپنے ہی ایسی ایسی باتیں کردیتے ہیں کہ دل اس وقت پھٹ جاتا ہے اور ان کی کہی ہوئی مذاق کی بات صدیوں دل میں رہ جاتی ہے۔
کامیاب بننے کیلئے جس عمر میں ہم شروعات کرتے ہیں وہ جوانی کی لڑکپن کی عمر ہوتی ہے جو کہ یقینا کچی ، اور جذبات کی عمر ہوتی ہے۔ اس کامیابی کا دباؤ اگرچہ ہر کوئی برداشت نہیں کرسکتا تو وہ خودکشی کے ذریعے موت کو گلے لگانا بہتر سمجھ لیتا ہے۔ نوجوانی میں اس قدر دباؤ دے دیا جاتا ہے کہ بعض اوقات مرنا ہی ایک راستہ دیکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ دباؤ کی سمجھ نہیں لگتی تو وہی دباؤ کی وجہ سے بدتمیزی بھی جنم لینا شروع کردیتی ہے۔ ناکامی کا ڈر اس حد تک کاٹنے لگتا ہے کہ بات کو سمجھانا ناممکن سے بھی اوپر ہوجاتا ہے تو بدتمیزی سے بات کرنے کی طرف قدم بڑھنے لگتے ہیں۔ پھر نئی بات نکل آتی ہے ( بڑی بدتمیز ہوں ) اے خدا کہ بندے تو مجھے سمجھ تو سہی۔ میرے دباؤ کو تو سمجھ میرے حالات کو تو سمجھ اور پھر بتا کیا میں بدتمیز ہوں یا میرے جان پر بوجھ ہے۔ تو سمجھ تو سہی۔
ایک سب سے بڑا بدل آتا ہے جب اپنے آپ کو بدل دینا ہوتا ہے۔ اپنے پسندیدہ کاموں کو ، اپنے وقت کو ، نیند کو ، مزوں کو آہستہ آہستہ چھوڑ دینے کا سلسلہ شروع ہونے لگتا ہے۔ چاہے یہ سب کامیاب ہونے کیلئے کرنا پڑتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ ہم خود کو کوسنا شروع کردیتے ہے۔ خود ہی اپنے آپ سے اکتاہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ جب اس کامیابی کی جنگ میں مشکلات سامنے کھڑی ہوجاتی ہے تو ہر چیز کا قصور اپنا ہی لگتا ہے۔ قصور وار ٹھہرائے بھی کس کو ۔۔۔ کون ہے جو مشکلات میں ساتھ دیتا ہے۔
کیا یہ واقعی کامیابی ہے یا پھر ہار کا خوف؟؟
بے شک کامیابی ضروری ہے لیکن ان کے پیچھے اپنا آپ کھا جانا زندگی کی سب سے بڑی ہار ہے۔ کامیاب بنو اپنے لیے اپنی خوشی کیلئے۔ یہ نہ ہو آگے بڑھتے بڑھتے اتنا کچھ پیچھے چھوٹ جائے کہ جب کامیابی ہاتھ میں آئے تو خوشی بانٹے والا کوئی نہ ہوں۔ خاص طور پر اپنا آپ ہی نہ ہو۔
تو کیا کرو گے اس کامیابی کا جب اپنا آپ ہی نہ ہو، سوچا کبھی؟؟