بلاگزلائف سٹائل

میرے بھتیجے نے ایم سی سٹین کو اپنا بڑا بھائی ہی بنالیا

 

رانی عندلیب

کچھ دن پہلے پشاور کے صدر کینٹ سے گزر رہی تھی تو ساتھ میں میرا بھتیجا بھی تھا۔ میں نے اچانک بھتیجے سے کہا۔ ارے یہ دیکھو یہ پی ٹی وی سنٹر ہے۔ تو بھتیجے نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ کہ "یہ پی ٹی وی کیا ہے، کوئی خاص جگہ ہے”۔ میں اتنی حیران ہو گئی کہ میرا بھتیجا ٹی وی کا چینل بھی نہیں پہچانتا اور مجھے فورا احساس ہوگیا کہ انکا دور تو ڈیجیٹل ہے وہ پاکستان ٹیلی وژن کے دور سے کیوں واقف ہوگا۔ ساتھ میں میرے دل میں یہ خیال ایا کہ واقعی سوشل میڈیا کی وجہ سے انسان کی زندگی میں اتنی تبدیلیاں آچکی ہے کہ وہ پی ٹی وی کو بھی نہیں پہچانتا۔ محمد ساریہ تو اب صرف 8 سال کا ہے۔

کچھ سالوں میں سوشل میڈیا نے اتنی ترقی کی کر لی ہے کہ ہماری اور نیو جنریشن کے بیچ میں بہت زیادہ فاصلہ بڑھا دیا ہے۔ ایک طرف دیکھا جائے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ ہمارے ملک میں بھی پرائیوٹ چینل اور سوشل میڈیا نے اتنی زیادہ ترقی کر لی ہے کیونکہ ان کے استعمال اور افادیت سے انکار بھی نہٰیں کیا جاسکتا لیکن دوسری طرف سے دیکھا جائے تو ان کے پسند اور ہماری پسند میں بھی بہت زیادہ فرق آگیا ہے۔

پی ٹی وی کے سامنے سے گزر کر پھر میں نے ساریہ کو پی ٹی وی کی مقبولیت کے بارے میں بتایا کہ ہمارے وقت میں صرف تین ہی چینل ہوا کرتے تھے۔ پی ٹی وی, پی ٹی وی ورلڈ ، چینل تھری، وہ بھی صرف سرکاری چینل تھے اسکے علاوہ اور کوئی پرائیوٹ ٹی وی چینل نہیں تھا۔

ہم پی ٹی وی کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے تھے، ہمارے زمانے میں کیبل بھی ہوا کرتا تھا، پاکستانی بہت سارے چینلز اس پر تھے، لیکن جو متوسط طبقے کے لوگ تھے، ان کے ہاں کیبل نہیں تھا زیادہ تر لوگوں کے گھروں میں بزرگ کیبل لگانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ان کے بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ یہ اچھا نہیں ہے، اس لیے ہمیں پی ٹی وی، پی ٹی وی ورلڈ اور چینل تھری پر ہی گزارا کرنا پڑتا تھا۔

بچپن میں بڑا شوق تھا کہ ہم بھی کسی دن پی ٹی وی سنٹر کو اندر جا کر دیکھ لیں، ہم بھی اپنے والدین سے کہتے کہ کیبل لگاتے ہیں فلاں کے گھر میں کیبل ہے تاکہ ہمارے گھر بھی زیادہ چینلز ہو۔ لیکن والدین کہتے کہ کوئی ضرورت نہیں۔ ہم تو صرف ریڈیو اور پی ٹی وی کے چند گھنٹوں کو غنیمت مانتے تھے۔ لیکن ہمارے برعکس اج کل کی نسل کچھ زیادہ ایڈوانس ہو گئی ہے۔

اس طرح والدین کے پسند کے گانے اور ہماری پسند کے گانوں میں بھی بڑا فرق ہوتا تھا ، وہ ناہید اختر، نورجہاں اور مہدی حسن کے گانے سنتے تھے اس طرح کشور کمار وغیرہ کے گانے بھی سنتے تھے۔ مجھے تو بڑا عجیب لگتا تھا کہ یہ کیوں اس طرح کے پرانے وقتوں کے گانے سنتے ہیں۔ پھر ہمارا دور آیاہم سونو نگم ،ہمیش ریشمیا ، ادت نارائن کے گانے شوق سے سنتے۔ جب بھی امی کہتی کہ یہ کیا گانے ہیں تو مجھے عجیب سا لگتا کہ یہ کیوں اس طرح کہہ رہی ہے لیکن شاید ہمارے درمیان بھی جنریشن گیپ اگیا تھا۔ ہم ماریو والا گیم کھیلتے۔ یا پھر موبائل میں سانپ والا ایک ہی گیم ہوا کرتا تھا وہ ہم کھیلتے۔ لیکن آج کل کے بچے فری فائر، پب جی ، تھری ڈی گیم کھیلتے ہیں۔

اب کل صبح کی ہی بات کروں تو میرا بھتیجا کہہ رہا تھا کہ میں ایم سی سٹین کا چھوٹا بھائی ہوں اور اسی کے گانے لگا کے سن رہا تھا مجھے بہت ہنسی آئی جس کی نا اواز اچھی ہے اور نہ اور نہ ہی گانے کے الفاظ، لیکن میرے بھتیجے کو وہ اتنا اچھا لگتا ہے کہ اس نے ایم سی سٹین کو اپنا بڑا بھائی ہی بنا لیا۔ لیکن اج کل کے بچے سدھو موسے والا ایم سی سٹین کے گانے بڑے شوق سے سنتے ہیں اور ان کے کانوں کو وہ اواز اچھی لگتی ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ اب ایک سرکاری چینل کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی وی کو ڈیجیٹلائزڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کی سوچ کے مطابق پروگراموں کو لانا چاہیے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی پہچان برقرار رہے۔ ہمیں تو پھر بھی پتہ ہے کہ یہ ایک سرکاری چینل تھا ہمارے جانے کے بعد شاید ہی نئی نسل اس کو پہچانے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button