عورت ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کیوں؟
تحریر: رعناز
الیکشن آنے والا ہے۔ تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ ہر امیدوار اپنے لیے اور اپنی پارٹی کے لیے مہم چلا رہا ہے۔ ووٹرز کی تعداد چیک ہو رہی ہے کہ کون سے علاقے میں کتنے ووٹرز ہیں۔ کتنے مرد ہیں اور کتنی عورتیں۔ مگر کبھی کسی نے یہ پتہ لگایا ہے کہ پاکستان کی کتنی فیصد عورتیں ووٹ ڈالتی ہیں اور کتنی اس حق سے محروم ہے اور اگر خواتین ووٹ نہیں ڈالتی تو اسکی وجوہات کیا ہیں؟
بدقسمتی سے پاکستان کے زیادہ تر پسماندہ علاقوں میں عورتیں ووٹ دینے کے حق سے محروم ہیں۔ ان علاقوں میں عورت کا گھر سے باہر نکل کر پولنگ اسٹیشن تک جانا غلط کام تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کو الیکشن کے دن گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا۔ باقاعدہ ان پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ ووٹ نہیں ڈالنا۔
غرض زندگی کی بھاگ دوڑ میں باقی کاموں کی طرح ووٹ ڈالنے میں بھی عورت کو آزادی حاصل نہیں ہے۔ اس میں بھی عورت مرد کے فیصلے کی پابند ہے اور عورت کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے۔ اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ووٹ ڈالے اور اپنی مرضی کا نمائندہ منتخب کرے۔ ادھر بھی عورت مرد کی محتاج ہے۔ ادھر بھی اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ آخر ہمیشہ عورت کے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہوتی ہے؟ کیا عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں؟ کیا عورت کو یہ آزادی نہیں کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنی رائے دے؟ کیا عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا نمائندہ منتخب کرے؟
شرعی لحاظ سے عورت کو ووٹ ڈالنے سے کبھی منع نہیں کیا گیا۔ ووٹ ڈالنا ہر شہری کا حق اور ذمہ داری ہے چاہے وہ پھر مرد ہو یا عورت۔ آئیے اب چلتے ہیں ان وجوہات کی طرف کہ کیوں عورت کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
زیادہ تر مردوں کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو ووٹ ڈالنے اس لیے نہیں جانے دیتے کیونکہ الیکشن کے دن گلی محلوں، سڑکوں اور پولنگ سٹیشنز پر مردوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بات ہماری عزت اور غیرت کو بالکل گوارا نہیں ہے کہ ان مردوں کی نظر ہماری عورتوں پر پڑے۔ تو یہاں پر میں یہ سوال کرنا چاہوں گی کہ جب یہی عورتیں باہر جا کر جابز کرتی ہے یا کھیتوں وغیرہ میں کام کرتی ہے تو اس وقت آپ لوگوں کی یہ غیرت کدھر ہوتی ہے؟ تب آپ لوگوں کی غیرت کہاں مر جاتی ہے؟ یہ تو سراسر جہالت ہے کیونکہ شریعت میں تو عورت کے ووٹ ڈالنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
اسی طرح ووٹ نہ ڈالنے کی دوسری بڑی وجہ شناختی کارڈ کا نہ ہونا بھی ہے۔ ابھی بھی پاکستان کے کچھ پسماندہ علاقے ہیں جہاں پر عورتوں کا قومی شناختی کارڈ نہیں بنایا گیا۔ تاہم یہ مسئلہ اس وقت کافی حد تک حل ہوا جب بے نظیر انکم سپورٹ کا پروگرام چلا۔ جس میں ضرورت مند عورتوں کو 12 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ اس کی وصولی کے لیے شناختی کارڈ کا ہونا لازمی تھا۔ اس لیے اس وقت زیادہ تر مردوں نے اپنی عورتوں کے شناختی کارڈ بنوا لیے تھے۔ لیکن وہ بھی صرف اور صرف پیسوں کی لالچ میں۔
مردوں کی طرح عورتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ ووٹ کا حق ادا کرے کیونکہ یہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے۔ ہمارے معاشرے کے مردوں کو عورتوں پر بلاوجہ کی پابندیوں کو ختم کر دینا چاہیے۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنے گھر کی عورتوں کو پولنگ سٹیشنز تک لے کے جائے تاکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرے اور پاکستانی شہری ہونے کی ذمہ داری نبھائے۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔