ندا اور عمر کی خوشیاں خاندانی تنازعات کی بھینٹ چڑھ گئی
شمائلہ افریدی
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات کا بلند درجہ عطا فرمایا۔ انسان سماجی جانور ہے یہ کسی بھی جگہ تنہا زندگی نہیں گزار کرسکتا۔ انسان کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے رشتے بنائے جو یقینا نعمت ہے۔ اب اس نعمت کو کس طرح سنبھالا جائے یہ ہم پر انحصار کرتا ہے کیونکہ ان ہی رشتوں کے سہارے انسان خوشحال اور پُرسکون رہتا ہے اور کبھی تنہائی محسوس نہیں کرتا۔
رشتوں کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے ہمیں رشتے داری نبھانی پڑتی ہے اور یہ رشتے داری سمجھداری، پیار و محبت سے پروان چڑھتی ہے۔ مگر یہ رشتے نہایت نازک بھی ہوتے ہیں لالچ، الزام تراشی، خود غرضی نفرت و غصہ کی وجہ سے اکثر ٹوٹ جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں رشتوں کی قدر میں کمی آگئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر خونی رشتوں میں فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ ندا عمر کے ساتھ ہوا جن کا چار سالہ رشتہ غلط فہمیوں کی وجہ سے ختم ہوگیا۔ ندا کا رشتہ اپنے ماموں کے بیٹے عمر سے خاندان کی مرضی سے طے ہوا تھا جن کے بیچ رابطہ بھی شروع ہوا اور اس طرح یہ رشتہ محبت میں تبدیل ہوگیا۔ ندا اور عمر محبت کے رشتے کو نکاح کا رنگ دینے کیلئے بیتاب تھے لیکن اچانک ان کا رشتہ بڑوں کے اپس کے تنازعات اور الٹے فیصلوں کی وجہ سے ختم ہوا جس سے ندا عمر کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
اکثر رشتوں میں ہمارے بڑوں کے اپس میں تنازعات کی وجہ سے تلخیاں پیدا ہوتی ہے جہاں بعض اوقات شادی کے بندھن میں جڑھے رشتے بھی بکھر جاتے ہیں۔ مرد اپنے والدین کی پاسداری عزت سمجھتا ہے اور ایسے میں ناجائز مطالبات کو بھی پورا کرکے حقیقی رشتوں کھودیتا ہے۔ عمر نے بھی اپنے والدین کے ناجائز مطالبہ کی اطاعت کی اور اپنی منگیتر ندا کو کھودیا۔ ندا کہتی ہیں کہ زندگی کا سب سے بڑا غم جس نے مجھے بے انتہا صدمہ میں ڈالا۔ میں عمر کو بہت چاہتی تھی ہم نے زندگی گزارنے کے خواب دیکھے تھے ہم ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن معلوم نہیں تھا کہ میرا یہ خواب ادھورا رہ جائے گا جس کے زمہ دار ہمارے بڑے ہوں گے۔
ندا کہتی ہے کہ خاندان کا اپس میں زمینی تنازعہ شروع ہوا اور ہمارا رشتہ توڑنے کی نوبت ائی۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ایسا نہ ہو لیکن ہمیں کہا گیا کہ ہم والدین کا کہنا نہ مان کر روایات کی مخالفت کررہے ہیں۔ ندا کہتی ہے کہ مجھے اور عمر کو گھر والوں کے فیصلے پر شدید اعتراض ہے لیکن ہم مجبور تھے ہماری ایک نہیں چلی۔ ندا کہتی ہے کہ عمر کو بھی بہت صدمہ پہنچا ہے سوچتی ہوں کہ اس ظلم کو کیسے بولوں گی جو میرا ساتھ ہوا۔۔۔۔
ندا عمر کس قرب سے گزر رہے ہیں وہی جانتے ہیں لیکن سوال یہ ہے اخر ہمارے معاشرہ میں خاندان دو چاہنے والوں کو الگ کیوں کرتا ہے؟؟؟؟
ہمارے معاشرے میں ہمارے بڑوں کے فیصلوں کی وجہ سے ندا اور عمر جیسے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ بڑوں کی عزت اطاعت لازمی کرنی چاہیے لیکن جہاں ایک لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو چاہتے ہو ان کے درمیاں رشتہ طے ہوچکا ہو ان کو الگ نہیں کرنا چاہیے۔
گھریلوں تنازعات کی وجہ سے دو انسانوں کے مابین محبت کے رشتے کو ختم نہ کرے اپنی بدگمانیوں کی وجہ سے ندا عمر جیسے خوبصورت رشتے کو نقصان نہ دے بلکہ اپنے تنازعات کو اپنے تک محدود رکھے۔ نہ کہ بیٹا بیٹی پر دباو ڈال کر قسمیں دے کرروایات کا نام دے کر ان کو علیحدہ کریں۔ کتنی تکلیف ہوتی ہے اسکا احساس صرف ان دو انسانوں کو ہی ہوتا ہے۔